معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 990
وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ مِمَّنْ حَلَّ ، وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا ، وَاكْتَحَلَتْ ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا ، فَقَالَتْ : إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا مَاذَا قُلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟ » قَالَ قُلْتُ : اللهُمَّ ، إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ ، قَالَ : « فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحِلُّ » قَالَ : فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً ، قَالَ : فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا ، إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ ،
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ ﷺ کا رخصتی حج
حضرت علی مرتضیٰ ؓ (جو زکوٰۃ اور دوسرے مطالبات کی وصولی وغیرہ کے لیے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے یمن گئے ہوئے تھے) وہاں سے رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے لیے مزید جانور لے کر مکہ معظمہ پہنچے، انہوں نے اپنی بیوی فاطمہ زہرا ؓ کو دیکھا کہ وہ احرام ختم کر کے حلال ہو چکی ہیں، اور رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ بھی استعمال کیا ہے، تو انہوں نے ان کے اس رویہ کو بہت غلط سمجھا اور ناگواری کا اظہار کیا (اور ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے ان سے کہا کہ: تم کو کس نے یہ کہا تھا کہ تم احرام ختم کرکے حلال ہو جاؤ) حضرت فاطمہ ؓ نے کہ کہ: مجھے ابا جان (رسول اللہ ﷺ) نے یہ حکم دیا تھا (میں نے اس کی تعمیل میں ایسا کیا ہے) ..... پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ: جب تم نے حج کی نیت کی اور تلبیہ کہہ کے احرام باندھا تو اس وقت تم نے کیا کہا تھا؟ (یعنی افراد کے طریقے پر صرف حج کی نیت کی تھی یا تمتع کے طریقے پر صرف عمرہ کی یا قِران کے طریقے پر دونوں کی ساتھ ساتھ نیت کی تھی؟) انہوں نے عرض کیا کہ: میں نے نیت اس طرح کی تھی کہ: اللهُمَّ، إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ (سے اللہ! میں احرام باندھتا ہوں اس چیز کا جس کا احرام باندھا ہو تیرے رسول ﷺ نے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: میں چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں (اور اس کی وجہ سے اب حج سے پہلے احرام ختم کرنے کی میرے لیے گنجائش نہیں ہے، اور تم نے میرے جیسے احرام کی نیت کی ہے) اس لیے تم بھی میری طرح احرام ہی کی حالت میں رہو ...... آگے حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ قربانی کے جو جانور رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھ لے کے آئے تھے اور جو بعد میں آپ ﷺ کے لیے حضرت علی ؓ یمن سے لے کر آئے ان کی مجموعی تعداد سو تھی (بعض روایات سے تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۶۳ اونٹ آنحضرت ﷺ کے ساتھ آئے تھے اور ۳۷ حضرت علی ؓ یمن سے لائے تھے) حضرت جابر ؓ نے آگے بیان کیا ہے کہ: رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق تمام ان صحابہ نے احرام ختم کر دیا جو قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے اور صفا مروہ کی سعی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے سروں کے بال ترشوا کر وہ سب حلال ہو گئے اور جو طواف و سعی انہوں نے کی تھی اس کو مستقل عمرہ قرار دے دیا۔ بس رسول اللہ ﷺ اور وہ صحابہؓ حالت احرام مین رہے جو اپنی قربانیاں ساتھ لائے تھے۔

تشریح
جن صحابہ ؓ نے آپ کی ہدایت اور حکم کے مطابق اپنا احرام ختم کیا انہوں نے اس موقع پر بال منڈوائے نہیں بلکہ صرف ترشوائے، ایسا انہوں نے غالباً اس لیے کیا کہ منڈوانے کی فضیلت حج کے احرام کے خاتمہ پر حاصل کر سکیں۔ واللہ اعلم۔
Top