معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 991
فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى ، فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ ، وَرَكِبَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ ، فَسَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ، كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ ، فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ ، فَنَزَلَ بِهَا.
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ ﷺ کا رخصتی حج
پھر جب یوم الترویہ (یعنی ۸ ذی الحجہ کا دن) ہوا تو سب لوگ منیٰ جانے لگے (اور صحابہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے صفا مروہ کی سعی کر کے اپنا احرام ختم کر چکے اور حلال ہو گئے تھے) انہوں نے حج کا احرام باندھا، اور رسول اللہ ﷺ اپنی ناقہ پر سوار ہو کر منیٰ کو چلے، پھر وہاں پہنچ کر آپ ﷺ نے (اور صحابہ کرام ؓ نے مسجد خیف میں) ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پانچوں نمازیں پڑھیں، پھر فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر آپ منیٰ میں اور ٹھہرے، یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا تو آپ ﷺ عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور آپ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ صوف کا بنا ہوا خیمہ آپ کے لیے نمرہ میں نصب کیا جائے۔ نمرہ دراصل وہ جگہ ہے جہاں سے آگے عرفات کا میدان شروع ہوتا ہے) آپ کے خاندان قریش کے لوگوں کو اس کا یقین تھا اور اس کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ آپ " مشعر احرام " کے پاس قیام کریں گے، جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے (لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ) آپ مشعر حرام کے حدود سے آگے بڑھ کر عرفہ پہنچ گئے اور آپ ﷺ نے دیکھا کہ (آپ کی ہدایت کے مطابق) نمرہ میں آپ کا خیمہ نصب کر دیا گیا ہے تو آپ اس خیمہ میں اتر گئے۔

تشریح
حج کی خاص نقل و حرکت کا سلسلہ ۸ ذی الحجہ سے شرع ہوتا ہے جس کو " یوم الترویہ " کہا جاتا ہے۔ اس دن صبح کو حجاج منیٰ کے لیے روانہ ہوتے ہیں، افراد یا قران کے طریقے پر حج کرنے والے تو پہلے سے احرام کی حالت میں ہوتے ہیں، ان کے علاوہ اور حجاج اسی دن یعنی ۸ ذی الحجہ کو احرام باندھ کر منیٰ کو جاتے ہیں اور نویں کی صبح تک وہیں قیام کرتے ہیں ..... رسول اللہ ﷺ اور آپ کے استھ بعض صحابہ ؓ جو اپنی قربانیاں اپنے ساتھ لائے تھے وہ تو احرام کی حالت میں تھے باقی صحابہ جنہوں نے عمرہ کر کے احرام ختم کر دیا تھا ان سب نے آٹھویں کی صبح کو حج کا احرم باندھا اور حج کا قافلہ منیٰ کو روانہ ہو گیا، اور اس دن وہیں قیام کیا، اور پھر نویں کی صبح کو سورج نکلنے کے بعد عرفات کے روانگی ہوئی۔ عرفات منیٰ سے قریباً ۶ میل اور مکہ سے قریباً ۹ میل ہے، اور یہ حدود حرم سے باہر ہے، بلکہ اس جانب میں حرم کی سرحد جہاں ختم ہوتی ہے وہیں سے عرفات کا علاقہ شروع ہوتا ہے ..... عرب کے عام قبائل جو حج کے لیے آتے تھے وہ سب نویں ذی الحجہ کو حدود حرم سے باہر نکل کے عرفات میں وقوف کرتے تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے خاندان والے یعنی قریش جو اپنے کو کعبہ کا مجاور و متولی اور " اہل حرم اللہ " کہتے تھے وہ وقوف کے لیے بھی حدود حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے، بلکہ اس کی حد کے اندر ہی مزدلفہ کے علاقہ میں مشعر حرام پہاڑی کے پاس وقوف کرتے تھے اور اس کو اپنا امتیاز سمجھتے تھے۔ اپنے اس پرانے خاندانی دستور کی بنناء پر قریش کو یقین تھا کہ رسول اللہ ﷺ بھی مشعر حرام کے پاس ہی وقوف کریں گے، لیکن چونکہ ان کا یہ طریقہ غلط تھا اور وقوف کی صحیح جگہ عرفات ہی ہے، اس لیے آپ ﷺ نے منیٰ سے چلتے وقت ہی اپنے لوگوں کو ہدایت فرما دی تھی کہ: آپ کے قیام کے لیے خیمہ نمزہ (1) میں نصب کیا جائے۔ چنانچہ اس ہدایت کے مطابق وادی نمرہ ہی میں آپ کے لیے خیمہ نصب کیا گیا، اور آپ وہیں جا کر اترے، اور اس خیمہ میں قیام فرمایا:
Top