معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 993
ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا ، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ ، وَدَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ ، حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى « أَيُّهَا النَّاسُ ، السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ » كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا ، حَتَّى تَصْعَدَ ، حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ ، فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ ، وَصَلَّى الْفَجْرَ ، حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ ، بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ ، حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا ، فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ ، وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا ، فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ ظُعُنٌ يَجْرِينَ ، فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ ، فَحَوَّلَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ ، فَحَوَّلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ ، يَصْرِفُ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ ، حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ ، فَحَرَّكَ قَلِيلًا ، ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى ، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ ، فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا ، مِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ ، رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ ، فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ، ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا ، فَنَحَرَ مَا غَبَرَ ، وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ ، فَطُبِخَتْ ، فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ ، فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ ، فَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ ، فَقَالَ : « انْزِعُوا ، بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ » فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ. (رواه مسلم)
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ ﷺ کا رخصتی حج
پھر (جب آپ ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ بلا فصل پڑھ چکے تو اپنی ناقہ پر سوار ہو کر آپ میدان عرفات مین خاص وقوف کی جگہ پر تشریف لائے اور اپنی ناقہ قصواء کا رخ آپ نے اس طرف کر دیا جدھر پتھر کی بڑی بڑی چٹانیں ہیں اور پیدل مجمع آپ نے اپنے سامنے کر لیا اور آپ قبلہ رو ہو گئے اور وہیں کھڑے رہے یہاں تک کہ غروب آفتاب کا وقت آ گیا، اور (شام کے آخری وقت میں فصا جو زرد ہوتی ہے وہ) زردی بھی ختم ہو گئی، اور آفتاب بالکل ڈودب گیا، تو آپ (عرفات سے مزدلفہ کے لیے) روزنہ ہوئے، اور اسامہ بن زید کو آپ نے اپنی ناقہ پر اپنے پیچھے سوار کر لیا تھا یہاں تک کہ آپ مزدلفہ آ گئے (جو عرفات سے قریباً تین میل ہے) یہاں پہنچ کر آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں، اور ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ (یعنی اذان ایک ہی دفعہ کہی گئی اور اقامت مغرب کے لیے الگ کہی گئی اور عشاء کے لیے الگ کہی گئی) اور ان دونوں نمازوں کے درمیان بھی آپ نے سنت یا نفل کی رکعتیں بالکل نہیں پڑھیں، اس کے بعد آپ لیٹ گئے، اور لیٹے رہے، یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی اور فجر کا وقت آ گیا، تو آپ نے صبح صادق کے ظاہر ہوتے ہی اذان اور اقامت کے ساتھ نماز فجر ادا کی، اس کے بعد آپ مشعر حرام کے پاس آئے (راجح قول کے مطابق یہ ایک بلند ٹیلہ سا تھا مزدلفہ کے حدود میں، اب بھی یہی صورت ہے اور وہاں نشانی کے طور پر ایک عمارت بنا دی گئی ہے) یہاں آ کر آپ قبلہ رو کھڑے ہوئے اور دعا اور اللہ کی تکبیر و تہلیل اور توحید و تمجید میں مشغول رہے، یہاں تک کہ خوب اجالا ہو گیا۔ پھر طلوع آفتاب سے ذرا پہلے آپ وہاں سے منیٰ کے لیے روانہ ہو گئے اور اس وقت آپ نے اپنی ناقہ کے پیچھے فضل بن عباس کو سوار کر لیا اور چل دئیے، یہاں تک کہ جب وادی محسر کے درمیان پہنچے تو آپ نے اونٹنی کی رفتار کچھ تیز کر دی، پھر اس سے نکل کر اس درمیان والے راستہ سے چلے جو بڑے جمرہ پر پہنچتا ہے، پھر اس جمرہ کے پاس پہنچ کر جو درخت کے پاس ہے آپ نے اس پر رمی کی، سات سنگ ریزے اس پر پھینک کر مارے جن مین سے ہر ایک کے ساتھ آپ تکبیر کہتے تھے، یہ سنگ ریزے " خذف کے سنگریزوں " کی طرح کے تھے (یعنی چھوٹے چھوٹے تھے جیسے کہ انگلیوں میں رکھ کر پھینکے جاتے ہین جو قریباً چنے اور مٹر کے دانے کے برابر ہوتے ہیں) آپ نے جمرہ پر یہ سنگ ریزے (جمرہ کے قریب والی) نشیبی جگہ سے پھینک کر مارے، اور اس رمی سے فارغ ہو کر قربان گاہ کی طرف تشریف لے گئے، وہاں آپ نے تریسٹھ (۶۳) اونٹوں کی قربانی اپنے ہاتھ سے کی، پھر جو باقی رہے وہ حضرت علی ؓ کے حوالہ فرما دئیے۔ ان سب کی قربانی انہوں نے کی اور آپ ﷺ نے ان کو اپنی قربانی میں شریک فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ قربانی کے ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک پارچہ لے لیا جائے، یہ سارے پارچے ایک دیگ مین ڈال کر پکائے گئے تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت علی ؓ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور حضرت علی ؓ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اپنی ناقہ پر سوار ہو کر طواف زیارت کے لیے بیت اللہ کی طرف چل دئیے اور ظہر کی نماز آپ نے مکہ میں جا کر پڑھی، نماز سے فارغ ہو کے (اپنے اہل خاندان) بنی عبدالمطلب کے پاس آئے جو زمزم سے پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں کو پلا رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ: اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ دوسرے لوگ غالب آ کر تم سے یہ خدمت چھین لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ ڈول کھینچتا۔ ان لوگوں نے آپ کو بھر کے ایک ڈول زمزم کا دیا تو آپ نے اس میں سے نوش فرمایا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حج کے سلسلہ کا سب سے بڑا عمل اور رکن اعظم " وقوف عرفہ " ہے یعنی ۹ ذی الحجہ کو بعد زوال ظہر و عصر کی نماز پڑھ کر میدان عرفات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہونا۔ اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ وقوف کتنا طویل فرمایا تھا .... ظہر و عصر کی نماز آپ نے ظہر کے شروع وقت ہی میں پڑھ لی تھی اور اس وقت سے لے کر غروب آفتاب تک آپ نے وقوف فرمایا اور اس کے بعد سیدھے مزدلفہ چل دئیے اور مغرب و عشاء آپ نے وہاں پہنچ کر ایک ساتھ ادا فرمائیں اور جیسا کہ گرز چکا یہی اس دن کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ مزدلفہ کی اس رات میں آپ ﷺ نے عشاء سے فارغ ہو کر فجر تک آرام فرمایا، اور اس رات تہجد یکسر ناغہ کیا، دو رکعتیں بھی نہیں پڑھیں (حالانکہ تہجد آپ سفر میں بھی ناغہ نہیں کرتے تھے) اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ نویں کے پورے دن آپ سخت مشغول رہے تھے۔ صبح کو منیٰ سے چل کر عرفات پہنچے، جہاں پہلے خطبہ دیا، پھر ظہر و عصر کی نماز پڑھی اور اس کے بعد وسے مغرب تک مسلسل وقوف فرمایا، پھر اسی وقت عرفات سے مزدلفہ تک کی مسافت طے کی، گویا فجر سے لے کر عشاء تک مسلسل حرکت اور مشقت، اور اگلے دن ۱۰ ذی الحجہ کو بھی اسی طرح مشغول رہنا تھا، یعنی صبح کو مزدلفہ سے چل کر منیٰ پہنچنا، وہاں جا کر پہلے رمی کرنا، اس کے بعد صرف ایک یا دو یا دس بیس نہیں بلکہ ساٹھ سے بھی اوپر اونٹوں کی قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا، اس کے بعد طواف زیارت کے لیے منیٰ سے مکہ جانا اور وہاں سے پھر منیٰ واپس آنا۔ بہر حال نویں اور دسویں ذی الحجہ کا پروگرام چونکہ اس قدر بھرا ہوا اور پر مشقت تھا، اس لیے ان دونوں کی مزدلفہ والی درمیانی رات میں پوری طرح آرام فرمانا ضروری تھا۔ جسم اور جسمانی قوتوں کے لیے بھی کچھ حقوق ہین اور ان کی رعایت خاص کر ایسے مجمعوں میں ضروری ہے، تا کہ سہولت اور رعایت کا پہلو بھی عوام کے علم میں آئے اور وہ شریعت کے صحیح اور معتدل مزاج کو سمجھ سکیں۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث میں صراحۃً مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تریسٹھ (۶۳) اونٹ اپنے ہاتھ سے قربان کئے۔ یہ غالباً وہی تریسٹھ (۶۳) اونٹ تھے جو آپ مدینہ طیبہ سے اپنے ساتھ قربانی کے لیے لائے تھے، باقی سینتیس اونٹ جو حضرت علی ؓ یمن سے لائے تھے وہ آپ نے انہی کے ہاتھ سے قربان کرائے، تریسٹھ کے عدد کی یہ حکمت بالکل کھلی ہوئی ہے کہ آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی، گویا زندگی کے ہر سال کے شکر میں آپ نے ایک اونٹ قربان کیا۔ واللہ اعلم۔ آپ ﷺ نے اور حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے اپنی قربانی کے اونٹوں کا گوشت پکوا کے کھایا، اور شوربا پیا، اس سے یہ بات سب کو معلوم ہو گئی کہ قربانی کرنے والا اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور اپنے اعزہ کو بھی کھلا سکتا ہے۔ ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی سے فارغ ہونے کے بعد آپ طواف زیارت کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ مسنون اور بہتر یہی ہے کہ طواف زیارت قربانی سے فارغ ہونے کے بعد ۱۰ ذی الحجہ ہی کو کر لیا جائے، اگرچہ تاخیر کی بھی اس میں گنجائش ہے۔ زمزم کا پانی کھینچ کھینچ کر حجاج کو پلانا یہ خدمت اور سعادت زمانہ قدیم سے آپ کے گھرانے بنی عبدالمطلب ہے کے حصے میں تھی۔ رسول اللہ ﷺ طواف زیارت سے فارغ ہونے کے بعد زمزم پر تشریف لائے، وہاں آپ کے اہل خاندان ڈول کھینچ کھینچ کر لوگوں کو اس کا پانی پلا رہے تھے۔ آپ کا بھی جی چاہا کہ اس خدمت میں کچھ حصہ لیں، لیکن آپ ﷺ نے بالکل صحیح سوچا کہ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کے اتباع اور تقلید میں آپ کے سارے رفقاء بھی اس سعادت میں حصہ لینا چاہیں گے ک، اور پھر بنی عبدالمطلب جن کا یہ قدیمی حق ہے وہ محروم ہو جائیں گے، اس لیے آپ ﷺ نے اپنے اہل خاندان کی دلداری اور اظہار تعلق کے لیے اپنی دلی خواہش کا اظہار تو فرما دیا، مگر ساتھ ہی وہ مصلحت بھی بیان فرما دی جس کی وجہ سے آپ نے اپنی اس دلی خواہش کے قربان کر دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا تھا، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی یہ حدیث حجۃ الوداع کے بیان میں سب سے طویل اور مفصل حدیث ہے، لیکن پھر بھی بہت سے واقعات کا ذکر اس سے چھوٹ گیا ہے، یہاں تک کہ حلق اور دسویں تاریخ کے خطبہ کا بھی اس میں ذکر نہیں آیا ہے جو دوسری حدیثوں میں مذکور ہے۔ حضرت جابر ؓ کی اس حدیث کے بعد راویوں نے اسی حدیث میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ: نَحَرْتُ هَاهُنَا، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا، وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ (رواه مسلم) میں نے قربانی اس جگہ کی ہے لیکن منیٰ کا سارا علاقہ قربانی کی جگہ ہے اس لیے تم سب لوگ اپنی اپنی جگہ قربانی کر سکتے ہو، اور میں نے عرفات میں وقوف (پتھر کی بڑی بڑی چٹانوں کے قریب کیا ہے) اور سارا عرفات وقوف کی جگہ ہے (اس کے جس حصہ میں بھی وقوف کیا جائے صحیح ہے) اور میں نے مزدلفہ میں یہاں (مشعر حرام کے قریب) قیام کیا اور سارا مزدلفہ موقف ہے (اس کے جس حصے میں بھی اس رات میں قیام کیا جائے صحیح ہے)۔
Top