معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 996
عَنْ أَنَسٍ « أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى مِنًى ، فَأَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ، ثُمَّ أَتَى مَنْزِلَهُ بِمِنًى وَنَحَرَ نُسُكُهُ ، ثُمَّ دَعَا باِلْحَلَّاقِ وَنَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَيْسَرَ » ، فَقَالَ : « احْلِقْ فَحَلَقَهُ ، فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ » ، فَقَالَ : « اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ » (رواه البخارى ومسلم)
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ ﷺ کا رخصتی حج
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (۱۰ ذی الحجہ کو صبح مزدلفہ سے) منیٰ تشریف لائے تو پہلے جمرۃ العقبیٰ پر پہنچ کر اس کی رمی کی۔ پھر آپ اپنے خیمہ پر تشریف لائے اور قربانی کے جانوروں کی قربانی کی، پھر آپ نے حجام کو طلب فرمایا اور پہلے اپنے سر مبارک کی داہنی جانت اس کے سامنے کی، اس نے اس جانب کے بال مونڈے۔ آپ ﷺ نے ابو طلحہ انصاری کو طلب فرمایا اور وہ بال ان کے حوالے کر دئیے، اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے سر کی بائیں جانب حجام کے سامنے کی اور فرمایا کہ اب میں اس کو بھی مونڈو، اس نے اس جانب کو بھی مونڈ دیا، تو آپ نے وہ بال بھی ابو طلحہ ہی کے حوالے فرما دئیے اور ارشاد فرمایا کہ ان بالوں کو لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت جابر ؓ کی مندرجہ بالا مفصل حدیث رسول اللہ ﷺ کے سر منڈوانے کا یہواقعہ ذکر سے چھوٹ فیا ہے، حالانکہ یہ حج کے سلسلے کے دسویں ذی الحجہ کے خاص اعمال اور مناسک میں سے ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا، حلق (سر منڈوانے) کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ داہنی جانب کے بال صاف کرائے جائیں اور پھر بائیں جانب کے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر اپنے بال او طلحہ انصاری ؓ کو عطا فرمائے۔ یہ ابو طلحہ آپ کے خاص محبین اور فدائیوں میں سے تھے۔ غزوہ احد میں حضور ﷺ کو کافروں کے حملے سے بچانے کے لیے انہوں نے اپنا جسم تیروں سے چھلنی کرا لیا تھا، اس کے علاوہ بھی رسول اللہ ﷺ کے راحت و آرام اور آپ کے ہاں آنے والے مہمانوں کا بھی یہ بڑا خیال رکھتے تھے۔ الغرض اس قسم کی خدمتوں میں ان کا اور ان کی بیوی ام سلیم (والدہ انس ؓ) کا ایک خاص مقام تھا۔ غالباً ان کی انہی خصوصی خدمات کی وجہ سے آپ نے سر مبارک کے بال ان کو مرحمت فرمائے اور دوسروں کو بھی انہی کے ہاتھوں تقسیم کرائے ..... یہ حدیث اہل اللہ اور صالحین کے تبرکات کے لیے بھی واضح اصل اور بنیاد ہے۔ بہت سے مقامات پر رسول اللہ ﷺ کے جو " موئے مبارک " بتائے جاتے ہیں ان مین سے جن کے بارے میں قابل اعتماد تاریخی ثبوت اور سند موجود ہے، غالب گمان یہ ہے کہ وہ حجۃ الوداع کے تقسیم کئے ہوئے انہی بالوں میں سے ہوں گے ....... بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے لوگوں کو ایک ایک دو دو بال تقسیم کئے تھے، اس طرح ظاہر ہے کہ وہ ہزاروں صحابہ کرام ؓ کے پاس پہنچے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے اخلاف نے اس مقدس تبرک کی حفاظت کا کافی اہتمام کیا ہو گا، اس لئے ان میں سے بہت سے اگر اب تک بھی کہیں کہیں محفوظ ہوں وت کوئی تعجب کی بات نہیں ..... لیکن قابل اعتماد تاریخی ثبوت اور سند کے بغیر کسی بال کو رسول اللہ ﷺ کا " موئے مبارک " قرار دینا بڑی سنگین بات اور گناہ عظیم ہے، اور بہر حال (اصلی ہو یا فرضی) اسکو اور اس کی زیارت کو ذریعہ تجارت بنانا جیسا کہ بہت سی جگہوں پر ہوتا ہے بدترین جرم ہے۔
Top