معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 998
عَنْ أَبِي بَكَرَةَ قَالَ : خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ "إِنَّ الزَّمَانَ اسْتَدَارَ كَهَيْئَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ : ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ : ذُو القَعْدَةِ ، وَذُو الحِجَّةِ ، وَالمُحَرَّمُ ، وَرَجَبُ مُضَرَ ، الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ ، وَقَالَ أَيُّ شَهْرٍ هَذَا " ، فَقُلْنَا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ ، قَالَ : « أَلَيْسَ ذَا الحِجَّةِ » ، قُلْنَا : بَلَى ، قَالَ : « أَيُّ بَلَدٍ هَذَا » . قُلْنَا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ ، قَالَ : « أَلَيْسَ البَلْدَةَ » . قُلْنَا : بَلَى ، قَالَ : « فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا » . قُلْنَا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ ، قَالَ : « أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ » . قُلْنَا : بَلَى ، قَالَ : " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا ، وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ ، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ ، أَلاَ فَلاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلَّالًا ، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ، أَلاَ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْا نَعَمْ قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ" (رواه البخارى ومسلم)
حجۃ الوداع یعنی رسول اللہ ﷺ کا رخصتی حج
حضرت ابو بکرہ ثقفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (حجۃ الوداع) میں دسویں ذی الحجہ کو خطبہ دیا۔ جس مین فرمایا: زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس اصلی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر وہ زمین و آسمان کی تخلیق کےک وقت تھا .... سال پورے بارہ مہینہ کا ہوتا ہے، ا ن میں سے ۴ مہینے خاص طور سے قابل احترام ہیں۔ تین مہینے تو مسلسل ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور چوتھا وہ رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے اور جس کو قبیلہ مضر زیادہ مانتا ہے ..... اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: بتاؤ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ: اللہ و رسول کو ہی زیادہ علم ہے۔ اس کے بعد کچھ دیر آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ اب آپ اس مہینہ کا کوئی اور نام مقرر کریں گے۔ (لیکن) آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ " ذی الحجہ " کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: بے شک یہ ذی الحجہ ہی ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: بتلاؤ یہ کونسا شہر ہے؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ: اللہ و رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ کچھ دیر خاموش رہے، یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ اب آپ اس شہر کا نام مقرر کریں گے۔ (لیکن) آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ " بلدہ " کا نہیں ہے؟ (مکہ کے معروف ناموں مین ایک " بلدہ " تھا) ہم نے عرض کیا: بے شک ایسا ہی ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کون سا دن ہے؟ ہم عرض کیا کہ: اللہ و رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا آج " یوم النحر " نہیں ہے؟ (یعنی ۱۰ ذی الحجہ جس میں قربانی کی جاتی ہے)۔ ہم نے عرض کیا: بے شک یہ آج یوم النحر ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے خون اور تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں حرام ہیں تم پر (یعنی کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ناحق کسی کا خون کرے، یا کسی کے مال پر یا اس کی آبرو پر دست درازی کرے۔ یہ سب تم پر ہمیشہ کے لیے حرام ہیں جیسا کہ آج کے مبارک اور مقدس دن میں خاص اس شہر اور اس مہینہ میں تم کسی کی جان لینا یا اس کا مال یا اس کی آبرو لوٹنا حرام سمجھتے ہو (بالکل اسی طرح یہ باتیں تمہارے واسطے ہمیشہ کے لیے حرام ہیں) ..... اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اور عنقریب (مرنے کے بعد آخرت میں) اپنے پروردگار کے سامنے تمہاری پیشی ہو گی، اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔ دیکھو، میں خبردار کرتا ہوں کہ تم میرے بعد ایسے گمراہ نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردنیں مارنے لگیں ...... (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:) بتاؤ کیا میں نے اللہ کا پیام تم کو پہنچا دیا؟ سب نے عرض کیا: بے شک آپ ﷺ نے تبلیغ کا حق ادا فرما دیا۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر کہا): اللَّهُمَّ اشْهَدْ (اے اللہ! تو گواہ رہ) (اس کے بعد آپ ﷺ نے حاضرین سے فرمایا): جو لوگ یہاں حاضر اور موجود ہیں (اور انہوں نے میری بات سنی ہے) وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ بہت سے وہ لوگ جن کو کسی سننے والے سے بات پہنچے اس سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں (اور وہ اس علم کی امانت کا حق ادا کرتے ہیں)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس خطبہ نبوی ﷺ کے ابتدائی حصے میں زمانہ کے گھوم پھر کے اپنے اصلی ابتدائی ہیئت پر آ جانے کا جو ذکر ہے اس کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جاہلیت میں اہل عرب کا ایک گمراہانہ دستور اور طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اپنی خاص مصلحتوں کے تحت کبھی کبھی سال تیرہ مہینے کا قرار دے دیتے تھے اور اس کے لیے ایک مہینہ کو مکرر مان لیتے تھے۔ اس کا لازی نتیجہ یہ تھا کہ مہینوں کا سارا نظام غلط اور حقیقت کے خلاف تھا، اس لے حج جو ان کے حساب سے ذی الحجہ میں ہوتا تھا دراصل ذی الحجہ میں نہیں ہوتا بلکہ جاہلیت کے پچاسوں اور سینکڑوں برس کے چکر کے بعد ایسا ہوا کہ ان اہل عرب کے حساب سے مثلاً جو محرم کا مہینہ تھا وہی اصل آسمانی حساب سے بھی محرم کا مہینہ تھا، اسی طرح جو اہل عرب کے حساب سے ذی الحجہ کا مہینہ تھا وہی اصل آسمانی حساب سے ذی الحجہ کا مہینہ تھقا۔ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ کے ابتدائی حصے میں یہی بات فرمائی ہے، اور یہ بتلایا ہے کہ یہ ذی الحجہ جس میں یہ حج ادا ہو رہا ہے اصل آسمانی حساب سے بھی ذی الحجہ ہی ہے اور سال بارہ ہی مہینہ کا ہوتا ہے، اور آئندہ صرف یہی اصلی اور حقیقی نظام چلے گا۔ خطبہ کے آخر میں آپ ﷺ نے خاص وصیت و ہدایت امت کو یہ فرمائی کہ میرے بعد باہم جدال و قتال اور خانہ جنگی میں مبتلا نہ ہو جانا، اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی گمراہی کی بات ہو گی ..... اسی خطبے کی بعض روایات میں " ضلالاً " کے بجائے " کفارا " کا لفظ آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ باہم جدال و قتال اور خانہ جنگی اسلام کے مقاصد اور اس کی روح کے بالکل خلاف کافرانہ رویہ ہو گا، اور اگر امت اس میں مبتلا ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے اسلام رویہ کے بجائے کافرانہ طرز عمل اختیار کر لیا۔ امت کو یہ آگاہی آپ نے بہت سے اہم خطبوں میں دی تھی اور غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ پر کسی درجہ پر منکشف ہو چکا تھا کہ شیطان اس امت کے مختلف طبقوں کو باہم لڑانے اور بھڑکانے میں بہت کامیاب ہو گا ..... وَكَانَ ذَالِكَ قَدَرًا مَّقْدُورًا
Top