معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1055
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ، وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالوَرِقِ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ؟ قَالُوا: بَلَى. قَالَ: ذِكْرُ اللهِ. (رواه احمد والترمذى وابن ماجة)
دوسرے تمام اعمال کے مقابلہ میں ذکر اللہ کی افضلیت
حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کیا میں تم کو وہ عمل بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمہارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے، اور راہِ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیر ہے، اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارو اور وہ تمہیں ذبح کریں اور شہید کریں؟ صحابہؓ نے عرض کیا۔ "ہاں یا رسول اللہ! ایسا قیمتی عمل ضرور بتائیے۔" آپ ﷺ نے فرمایا۔ "وہ اللہ کا ذِکر ہے۔" (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
یہ حدیث دراصل قرآن مجید کی آیت "ولذكر الله اكبر" کی تشریح و تفسیر ہے۔ بےشک "ذکراللہ" اس لحاظ سے کہ وہ اصلاً بالذات مقصد اعلیٰ ہے اور اللہ کی رضا اور اس کے تقرب کا سب سے قریبی ذریعہ ہے۔ وہ دوسرے تمام اعمال سے بہتر اور بالاتر ہے۔ اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ کسی خاص حالت میں اور کسی ہنگامی موقع پر صدقہ اور انفاق لوجہ اللہ یا جہاد و قتال فی سبیل اللہ کو زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک عمل ایک اعتبار سے افضل و اہم ہو اور دوسرے اعتبار سے کوئی دوسرا عمل زیادہ اہمیت رکھتا ہو۔ آگے درج ہونے والی حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی حدیثوں کا مطلب و مدعا بھی قریب قریب یہی ہے اور ان میں سے ہر حدیث سے دوسری حدیث کی شرح اور تائید ہوتی ہے۔
Top