معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1075
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ»
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کی خاص فضیلت
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک دن فرمایا: "میں تمہیں وہ کلمہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے؟ میں نے عرض کیا کہ: "ہاں حضرت ﷺ! ضرور بتائیں"۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ہے "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس کلمہ کے "خزائن جنت" میں سے ہونے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص یہ کلمہ اخلاص کے ساتھ پڑھے گا اس کے لئے اس کلمہ کے بےبہا اجر و ثواب کا خزانہ اور ذخیرہ جنت میں محفوظ کیا جائے گا جس سے وہ آخرت میں ویسا ہی فائدہ اُٹھا سکے گا جیسا کہ ضرورت کے موقعوں پر محفوظ خزانوں سے اٹھایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کا منشا اس لفظ سے اس کلمہ کی صرف عظمت اور قدر و قیمت بتانا ہے، یعنی یہ کہ جنت کے خزانوں کے جواہرات میں سے یہ ایک جوہر ہے۔ کسی چیز کو بہت قیمتی بتانےکے لئے یہ بہترین تعبیر ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم۔ "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ" کا مطلب یہ ہے کہ کہ کسی کام کے لئے سعی و حرکت اور اس کے کرنے کی قوت و طاقت بس اللہ ہی سے مل سکتی ہے، کوئی بندہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ دوسرا ایک مطلب جو اس کے قریب ہی قریب ہے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ "گناہ سے باز آنا اور طاعت کا بجا لانا اللہ کی مدد و توفیق کے بغیر بندے سے ممکن نہیں"۔
Top