معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1078
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ. (رواه البخارى ومسلم)
اسمائے حسنیٰ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام یعنی ایک کم سو نام ہیں، جس نے ان کو محفوظ کیا اور ان کی نگہداشت کی وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حقیقی معنی میں اللہ پاک کا نام یعنی اسم ذات صرف ایک ہی ہے، اور وہ ہے "اللہ" البتہ اس کے صفاتی نام سینکڑوں ہیں جو قرآن مجید اور احادیث مین وارد ہوئے ہیں، انہی کو اسماء حسنیٰ کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں امام جعفر بن محمد صادق اور سفیان بن عیینہ اور بعض دوسرے اکابر امت سے نقل کیا ہے کہ: "اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام تو صرف قرآن مجید ہی میں مذکور ہیں۔ اور پھر انہی حضرات سے ان کی تفصیل اور تعیین بھی نقل ہے۔ اس کے بعد حافظ ممدوحؒ نے ان میں سے بعض اسماء کے متعلق یہ تبصرہ کر کے کہ یہ اپنی خاص شکل میں قرآن مجید میں مذکور نہیں ہیں بلکہ استخراج اور اشتقاق کے طور پر وضع کئے گئے ہیں، ان کے بجائے دوسرے اسماء قرآن مجید ہی سے نکال کے بتایا ہے کہ یہ ننانوے اسماء الٰہیہ قرآن مجید میں اپنی اصل شکل میں مذکور ہیں اور ان کی پوری فہرست دی ہے جو ان شاء اللہ عنقریب نقل ہو گی"۔ ہمارے ہی زمانہ کے بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء کا تتبع احادیث سے کیا تو دو سو سے زائد ان کو ملے۔ یہ سارے صفاتی اسماء حسنیٰ اللہ تعالیٰ کے صفاتِ کمال کے عنوانات اور اس کی معرفت کے دروازے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے ذکر کی ایک بڑی جامع اور تفصیلی شکل یہ بھی ہے کہ بندہ عظمت اور محبت کے ساتھ ان اسماء کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور ان کو اپنا وظیفہ بنائے۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے۔ تشریح ..... صحیحین کی روایت میں صرف اتنا ہی ہے، ان ننانوے ناموں کی تفصیل اور تعین اس روایت میں نہیں کی گئی ہے۔ عنقریب ہی ان شاء اللہ جامع ترمذی وغیرہ کی اس روایت کا ذکر آئے گا جس میں تفصیل کے ساتھ یہ ننانوے نام بیان کئے گئے ہیں۔ شارحین حدیث اور علماء کا اس پر قریب قریب اتفاق ہے کہ اسماء الہیہ صرف ننانوے پر منحصر نہیں ہیں اور یہ ان کی پوری تعداد نہیں ہے، کیوں کہ تتبع اور تلاش کے بعد احادیث میں اس سے بہت زیادہ تعداد مل جاتی ہے۔ اس لئے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی اس حدیث کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب اور مدعا صرف یہ ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کو یاد کرے گا اور ان کی نگہداشت کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ یعنی صرف ننانوے ناموں کا احصاء کر لینے پر بندہ اس بشارت کا مستحق ہو جائے گا۔ حدیث پاک کے جملہ "مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الجَنَّةَ" کی تشریح میں علماء اور شارحین نے مختلف باتیں لکھیں ہیں۔ ایک مطلب اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو بندہ اسماء الہیہ کے مطالب سمجھ کر اور ان کی معرفت حاصل کر کے اللہ تعالیی کی ان صفات پر یقین کرے گا جن کے یہ اسماء عنوانات ہیں وہ جنت میں جائے گا۔ دوسرا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو بندہ ان اسماء حسنیٰ کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا وہ جنت میں جائے گا۔ تیسرا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو بندہ ننانوے ناموں سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرے گا اور ان کے ذریعے اس سے دعا کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ امام بخاریؒ نے "مَنْ أَحْصَاهَا" کی تشریح "مَنْ حَفِظَهَا" سے کی ہے، بلکہ اس حدیث کی بعض روایات میں "مَنْ أَحْصَاهَا" کی جگہ "مَنْ حَفِظَهَا" کے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں، اس لئے اس تشریح کو ترجیح دی گئی ہے، اور اسی لئے ترجمہ میں اس عاجز نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جو بندہ ایمان اور عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیی کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کے ننانوے نام محفوظ کر لے اور ان کے ذریعہ اس کو یاد کرے وہ جنت میں جائے گا۔ واللہ اعلم۔
Top