معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1080
عَنْ بُرَيْدَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ، الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
اسم اعظم
حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اس طرح دُعا کرتے ہوئے سنا، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کر رہا تھا: "اے اللہ! میں اپنی حاجت تجھ سے مانگتا ہوں بوسیلہ اس کے کہ بس تو اللہ ہے، تیرے سوا کوئی مالک و معبود نہیں، ایک اور یکتا ہے، بالکل بےنیاز ہے، اور سب تیرے محتاج ہیں، نہ کوئی تیری اولاد، نہ تو کسی کی اولاد اور نہ تیرا کوئی ہمسر" رسول اللہ ﷺ نے (جب اس بندے کو یہ دُعا کرتے سنا تو) فرمایا کہ: اس بندے نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا کی ہے جب اس کے وسیلہ سے اس سے مانگا جائے تو وہ دیتا ہے، اور جب اس کے وسیلہ سے دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

تشریح
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے بعض وہ ہیں جن کو اس لحاظ سے خاص عظمت و امتیاز حاصل ہے کہ جب ان کے ذریعہ دعا کی جائے تو قبولیت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے۔ ان اسماڑ کو حدیث میں "اسم اعظم" کہا گیا ہے، لیکن صفائی اور صراحت کے ساتھ ان کو متعین نہیں کیا گیا ہے، بلکہ کسی درجہ میں ان کو مبہم رکھا گیا ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ لیلۃ القدر کو اور جمعہ کے دن قبولیت دعا کے خاص وقت کو مبہم رکھا گیا ہے۔ احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایک ہی اسمِ پاک "اسمِ اعظم" نہیں ہے جیسا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ متعدد اسماءِ حسنیٰ کو "اسمِ اعظم" کہا گیا ہے۔ نیز انہی احادیث سے یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ عوام میں اسمِ اعظم کا جو تصور ہے اور اس کے بارے میں جو باتیں مشہور ہین وہ بالکل بےاصل ہیں، اصل حقیقت وہی ہے جو اوپر عرض کی گئی ہے۔ اس کے بعد اس سلسلہ کی احادیث ذیل میں پڑھی جائیں:
Top