معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1082
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اسْمُ اللهِ الأَعْظَمُ فِي هَاتَيْنِ الآيَتَيْنِ {وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ} وَفَاتِحَةِ آلِ عِمْرَانَ {الم اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ}. (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجه والدارمى)
اسم اعظم
اسماء بنت یزید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اسْمُ اللهِ الأَعْظَمُ" ان دو آیتوں میں موجود ہے۔ ایک "وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ"اور دوسری آل عمران کی ابتدائی آیت "الم اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ" (جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)

تشریح
ان احادیث میں غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی ایک مخصوص نام پاک کو اسم اعظم نہیں فرمایا گیا ہے، بلکہ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ آخری حدیث میں جن دو آیتوں کا حوالہ دیا گیا، اور اس سے پہلی دونوں حدیثوں مین دو شخصوں کی جو دو دُعائیں نقل کی گئی ہیں ان میں سے ہر ایک میں متعدد اسماءِ الٰہیہ کی خاص ترکیب سے اللہ تعالیٰ کا جو مرکب اور جامع وصف مفہوم ہوتا ہے اس کو "اسم اعظم" سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس نوع کے علوم و معارف سے خاص طور پر نوازا ہے، انہوں نے ان احادیث سے یہی سمجھا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top