معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1083
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِي وَمَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ، وَفَضْلُ كَلاَمِ اللهِ عَلَى سَائِرِ الكَلاَمِ كَفَضْلِ اللهِ عَلَى خَلْقِهِ. (رواه الترمذى والدارمى والبيهقى فى شعب الايمان)
قرآن مجید کی عظمت و فضیلت
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو قرآن نے مشغول رکھا میرے ذکر سے اور مجھ سے سوال اور دعا کرنے سے میں اس کو اس سے افضل عطا کروگا جو سائلوں اور دعاکرنے والوں کوعطا کرتاہوں،اور دوسرے اور کلاموں کے مقابلے میں اللہ کے کلام کو ویسی ہی عظمت و فضلیت حاصل ہے جیسی اپنی مخلوق کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو۔ (جامع ترمذی، سنن دارمی، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
ذکر کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت بھی "ذکراللہ" کی ایک قسم ہے، اور بعض حیثیتوں سے سب سے افضل اور اعلیٰ قسم ہے۔ اس میں بندے کی مشغولیت اللہ تعالیٰ کو بےحد محبوب ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تشبیہ اور مثال سے وراء الورا ہے، لیکن ناچیز راقم سطور نے اس حقیقت کو اپنے اس ذاتی تجربہ سے خوب سمجھا ہے کہ جب کبھی کسی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ میری لکھی ہوئی کوئی کتاب قدر اور توجہ سے پڑھ رہا ہے تو دل سرور سے بھر گیا اور اس شخص سے ایک خاص تعلق اور لگاؤ پیدا ہو گیا، ایسا تعلق اور لگاؤ جو بہت سے قریبی عزیزوں، دوستوں سے بھی نہیں ہوتا۔ بہرحال میں نے تو اپنے اسی تجربہ سے یہ سمجھا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنے پاک کلام قرآن مجید کی تلاوت کرتے سنتا اور دیکھتا ہو گا، تو اس بندہ پر اس کو کیسا پیار آتا ہو گا (الا یہ کہ اپنے کسی شدید جرم کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور نظرِ کرم کا مستحق ہی نہ ہو) رسول اللہ ﷺ نے امت کو قرآن مجید کی عظمت سے آشنا کرنے اور اس کی تلاوت وغیرہ کی ترغیب دینے کے لئے مختلف عنوانات استعمال فرمائے ہیں۔ ہم نے بھی اسی سلسلہ کی احادیث کو مختلف عنوانات میں تقسیم کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات سے وہ نفع اٹھانے کی توفیق دے جو ان کا اصل مقصد ہے۔ قرآن مجید کی عظمت و فضیلت قرآن مجید کی بےانتہا عظمت کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ کلام اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی صفت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے، یہاں تک کہ زمینی مخلوقات میں کعبۃ اللہ اور انبیاء علیہم السلام کی مقدس ہستیاں، اور عالم بالا و عالم غیب کی مخلوقات میں عرش، کرسی، لوح و قلم، جنت اور جنت کی نعمتیں اور اللہ کےئ مقرب ترین فرشتے، یہ سب اپنی معلوم و مسلم عظمت کے باوجود غیراللہ اور مخلوق ہیں۔ لیکن قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور اس سے الگ اور اس سے الگ کی کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ اس کی حقیقی صفت ہے جو اس کی ذاتِ عالی کے ساتھ قائم ہے۔ یہ اللہ پاک کا بےانتہا کرم اور اس کی عظیم تر نعمت ہے کہ اس نے اپنے رسولِ امین کے ذریعے وہ کلام ہم تک پہنچایا اور ہمیں اس لائق بنایا کہ اس کی تلاوت کر سکیں اور اپنی زبان سے اس کو پڑھ سکیں پھر اس کو سمجھ کر اپنی زندگی کا راہنما بنا سکیں۔ قرآن مجید مین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طویٰ کی مقدس وادی میں ایک مبارک درخت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا کلام سنوایا تھا۔ کتنا خوشقسمت تھا وہ بےجان درخت جس کو حق تعالیٰ نے اپنا کلام سنوانے کے لئے بطور آلہ کے استعمال فرمایا تھا۔ جو بندہ اخلاص اور عظمت و احترام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اس کو اس وقت شجرہ موسوی والا یہ شرف نصیب ہوتا ہے، اور گویا وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے کلامِ مقدس کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ حق یہ ہے کہ انسان اس سے آگے کسی شرف کا تصور بھی نہیںٰ کر سکتا۔ اس مختصر تمہید کے بعد قرآن مجید کی عظمت و فضیلت کے بیان میں رسول اللہ ﷺ کی مندرجہ ذیل چند حدیثیں پڑھئے: تشریح ..... اس سلسلہ معارف الحدیث میں پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب کسی حدیث میں رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے کوئی بات فرمائیں اور وہ بات قرآن مجید میں نہ ہو تو خاص عرف و اصطلاح میں ایسی حدیثوں کو "حدیث قدسی" کہتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کی یہ حدیث بھی اسی طرح کی ہے۔ اس میں دو باتیں فرمائی گئی ہیں: ایک یہ لہ اللہ کے جس بندے کو اللہ تعالیٰ کے کلام پاک سے ایسا شغف ہو کہ وہ دن رات اسی میں لگا لپٹا رہتا ہو، یعنی اس کی تلاوت میں اس کے یاد کرنے میں، اس کے تدبر اور تفکر میں، یا اس کے سیکھنے سکھانے میں اخلاص کے ساتھ مشغول رہتا ہو، اور قرآن پاک میں اس ہمہ وقتی مشغولیت کی وجہ سے اس کے علاوہ اللہ کے ذکر اس کی حمد و تسبیح اور اس سے دعائیں کرنے کا موقع ہی اس کو نہ ملتا ہو، تو وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ کچھ خسارے مین رہے گا اور ذکر و دعا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ اس کو نہ پا سکے گا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ ایسے بندوں کو میں اس سے زیادہ اور اس سے بہتر دوں گا جو ذکر کرنے والے اور دعائین مانگنے والے اپنے بندوں کو دیتا ہوں۔دوسری بات اس حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ کے کلام کو دوسرے کلاموں کے مقابلے میں ویسی ہی عظمت و فضیلت حاصل ہے جیسی کہ خود اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے مقابلہ میں، اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفتِ قائمہ ہے۔
Top