معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1093
عَنْ أَبِىْ أُمَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ، اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ، وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا، اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ». (رواه مسلم)
قیامت میں قرآنِ پاک کی شفاعت و وکالت
حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ: "قرآن پڑھا کرو، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا شفیع بن کر آئے گا .... (خاص کر) "زہراوین" یعنی اس کی دو اہم نورانی سورتیں البقرۃ اور آل عمران پڑھا کراو، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کو اپنے سایہ میں لئے اس طرح آئیں گی جیسے کہ وہ اَبر کے ٹکڑے ہیں، یا سائبان ہیں، یا صف باندھے پرندوں کے پرے ہیں۔ یہ دونوں سورتیں قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے مدافعت کریں گی (آپ ﷺ نے فرمایا) پڑھا کرو سورہ بقرہ کیونکہ اس کو حاصل کرنا بڑی برکت والی بات ہے، اور اس کو چھوڑنا بڑی حسرت اور ندامت کی بات ہے،ا ور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے۔" (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ: قرآنِ اپنے "اصحاب" کے لئے بارگاہِ خداوندی میں شفاعت کرے گا۔ "اصحاب قرآن" وہ سب لوگ ہیں جو قرآنِ پاک پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس سے تعلق اور شغف کو اللہ تعالیی کی رضا اور رحمت کا وسیلہ یقین کرتے ہوئے اس سے خاص نسبت اور لگاؤ رکھیں، جس کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ مثلاً کثرت سے اس کی تلاوت کریں، اس میں تدبر اور تفکر اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا اہتمام رکھیں، یا اس کی تعلیم ہدایت کو عام کرنے اور پھیلانے کی جدوجہد کریں، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے کہ قرآنِ ان کے حق میں شفیع ہو گا۔ ہاں اخلاص یعنی اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت شرط ہے۔ اس حدیث میں قرآنِ پاک کی قرأت و تلاوت کی عمومی ترغیب کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی تلاوت و قرأت کی خصوصیت کے ساتھ بھی ترغیب دی ہے۔ اور فرمایا کہ: قیامت میں اور حشر میں جب ہر شخص سایہ کا بہت ہی محتاج اور ضرورت مند ہو گا، یہ دونوں سورتیں بادل یا سایہ دار چیز کی طرح یا پرندوں کے پرے کی طرح اپنے اصحاب پر سایہ کئے رہیں گی اور ان کی طرف سے وکالت اور جواب دہی کریں گی۔ اور آخر میں سورہ بقرہ کے متعلق مزید فرمایا کہ: اس کے سیکھنے اور پڑھنے میں بڑی برکت ہے، اور اس سے محرومی میں بڑا خسارہ ہے۔ اور اہلِ بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس حدیث کے بعض راویوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد "ساحرین" ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تلاوت کا معمول رکھنے والے پر کبھی کسی جادو گر کا جودو نہیں چلے گا۔ سورہ بقرہ کی اس خاصیت اور تاثیر کا اشارہ اس حدیث سے بھی ملتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ: جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے شیطان اس گھر سے بھاگنے پر مجبور ہوتا ہے۔ (1) بعض شارحین نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ اہل بطالت یعنی ناحق کوش لوگ شورہ بقرہ کی برکات حاصل نہ کر سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان برکات کا دورازہ بند کر دیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top