معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1094
عَنِ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، وَآلُ عِمْرَانَ»، كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا» (رواه مسلم)
قیامت میں قرآنِ پاک کی شفاعت و وکالت
حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ: "قیامت کے دن قرآن کو اور ان قرآن والوں کو لایا جائے گا جو اس پر عامل تھے۔ سورہ بقرہ اور آل عمران (جو قرآن کی سب سے پہلی سورتیں ہیں) وہ پیش پیش ہوں گی (محسوس ہو گا) گویا کہ وہ بادل کے دو ٹکڑے ہیں، یا سیاہ رنگ کے دو سائبان ہیں جن میں نور کی چمک ہے، یا صف باندھے پرندوں کے دو پرے ہین، اور وہ مدافعت اور وکالت کریں گی اپنے سے تعلق رکھنے والوں کی "۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث کا مضمون قریب قریب وہی ہے جو حضرت ابو امامہ کی مندرجہ بالا حدیث کا ہے۔ ذرا تصور کیا جائے قیامت اور میدانِ حشر کی ہولناکیوں کا۔ کیسے خوش نصیب ہوں گے اللہ کے وہ بندے جو قرآنِ پاک سے خاص تعلق اور شغف اور اس کے احکام کی فرمانبرداری کی برکت سے حشر کے اس پرہول میدان میں اس شان سے آئیں گے کہ اللہ کا کلام پاک ان کا شفیع و وکیل بن کر ان کے ساتھ ہو گ، اور اس کی پہلی اور اہم نورانی سورتیں بقرہ اور آل عمران اپنے انوار کے ساتھ ان کے سروں پر سایہ فگن ہوں گی۔ ان احادیث پر مطلع ہو جانے کے بعد بھی جو بندے اس سعادت کے حاصل کرنے میں کوتاہی کریں، بلاشبہ وہ بڑے محروم ہیں۔
Top