معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1123
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ، وَمَا سُئِلَ اللَّهُ شَيْئًا يَعْنِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ العَافِيَةَ. (رواه الترمذى)
دُعا کا مقام اور اس کی عظمت
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے۔ اور اللہ کو سوالوں اور دعاؤں میں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندے اس سے عافیت کی دعا کریں، یعنی کوئی دعا اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ محبوب نہیں۔" (جامع ترمذی)

تشریح
عافیت کا مطلب ہے تمام دنیوی و اُخروی اور ظاہری و باطنی آفات اور بلیات سے سلامتی اور تحفظ۔ تو جو شخص اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگتا ہے وہ برملا اس بات کا اعتراف اور اظہار کرتا ہے کہ اللہ کی حفاظت اور کرم کے بغیر وہ زندہ اور سلامت بھی نہیں رہ سکتا اور کسی چھوٹی یا بڑی مصیبت اور تکلیف سے اپنے کو نہیں بچا سکتا۔ پس ایسی دعا اپنی کامل عاجزی و بےبسی اور سراپا محتاجی کا مظاہرہ ہے اور یہی کمالِ عبدیت ہے، اسی لئے عافیت کی دعا اللہ تعالیٰ کو سب دعاؤں سے زیادہ محبوب ہے۔ دوسری بات حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل گیا یعنی جس کو دعا کی حقیقت نصیب ہو گئی اور اللہ سے مانگنا آ گیا اس کے لئے رحمتِ الٰہی کے دروازے کھل گئے۔ دعا دراصل ان دعائیہ الفاظ کا نام نہیں ہے جو زبان سے ادا ہوتے ہیں، ان الفاظ کو تو زیادہ سے زیادہ دعا کا لباس یا قالب کہا جا سکتا ہے۔ دعا کی حقیقت انسان کے قلب اور اس کی روح کی طلب اور تڑپ ہے اور حدیث پاک میں اس کیفیت کے نصیب ہونے ہی کو بابِ دعا کے کھل جانے سے تعبیر کیا گیا ہے، اور جب بندے کو وہ نصیب ہو جائے تو اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل ہی جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔
Top