معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1136
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَدْعُوا بِالْمَوْتِ وَلَا تَتَمَنَّوْهُ، فَمَنْ كَانَ دَاعِيًا لَا بُدَّ فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي " (رواه النسائى)
وہ دُعائیں جن کی ممانعت ہے
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: "تم لوگ موت کی دعا اور تمنا نہ کرو، اور کوئی آدمی ایسی دعا کے لئے مضطر ہی ہو (اور کسی وجہ سے زندگی اس کے لئے دو بھر ہو) تو اللہ کے حضور میں یوں عرض کرے: "اے اللہ! جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھ، اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو دنیا سے مجھے اٹھا لے"۔ (سنن نسائی)

تشریح
ان حدیثوں میں دراصل موت کی اس دعا اور تمنا سے ممانعت فرمائی گئی ہے جو کسی تکلیف اور پریشانی سے تنگ آ کر زبان پر آ جاتی ہے۔ بعض حدیثوں کے الفاظ میں اس کی صراحت بھی ہے۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت انس ؓ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: "لاَ يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمُ المَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ" الحدیث (تم میں سے کوئی کسی پیش آ جانے والی تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے) اس صورت میں موت کی تمنا اور دعا سے ممانعت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ صبر کی صفت کے خلاف ہے اور دوسری اس سے بھی اہم وجہ یہ ہے کہ آدمی جب تک زندہ ہے اس کے لئے توبہ و استغفار کے ذریعہ اپنے کو پاک صاف کرنے کا اور حسنات و طاعات کے ذریعہ اپنے ذخیرہ آخرت میں اضافہ اور اللہ تعالیٰ کا مزید تقرب حاصل کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہے پس موت کی دعا اس کھلے دروازے کو بند کرنے کی دعا ہے، اور ظاہر ہے کہ اس میں بندہ کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ البتہ اللہ کے خاص مقرب بندے جب ان کا وقتِ موعود قریب آتا ہے تو لقاءِ الٰہی کے غلبہ شوق کی وجہ سے کبھی کبھی ان سے موت کی تمنا اور دعا کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی دُعا: (1) " فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ" اور آخر وقت میں رسول اللہ ﷺ کی دعا: "اللهم الرفيق الاعلى" (اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کا طالب و سائل ہوں) اسی قبیل سے ہیں۔ واللہ اعلم۔
Top