معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1142
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعُمْرَةِ، فَأَذِنَ لِي، وَقَالَ: «لَا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ»، فَقَالَ كَلِمَةً مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الدُّنْيَا. (رواه ابوداؤد والترمذى)
اپنے چھوٹوں سے بھی دُعا کی درخواست
حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں کہ: "ایک دفعہ میں نے عمرہ کرنے کے لئے مکہ معظمہ جانے کی رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی، تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت عطا فرما دی، اور ارشاد فرمایا: "بھیا ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شامل کرنا اور ہم کو بھول نہ جانا؟" حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ: "آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کر کے یہ بھیا کا جو کلمہ کہا، اگر مجھے اس کے عوض ساری دنیا دے دی جائے تو میں راضی نہ ہوں گا۔" (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دعا ایسی چیز ہے جس کی استدعا بڑوں کو بھی اپنے چھوٹوں سے کرنی چاہئے۔ بالخصوص اس وقت جب کہ وہ کسی ایسے مقبول عمل کے لئے یا ایسے مقدس مقام کو جا رہا ہوں جہاں قبولیت کی خاص امید ہو۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو "اُخَىَّ" کے لفظ سے خطاب فرمایا جو "أُخَيَّ" کی تصغیر ہے، اور جس کا لفظی ترجمہ "بھیا" ہے۔ اس سے حضرت عمر ؓ کو جتنی خوشی ہوئی (جس کا انہوں نے اظہار بھی فرمایا ہے) وہ بالکل برحق ہے۔ اس کے ساتھ اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کے مقام کی رفعت اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی مقبولیت کی جو شہادت ملتی ہے وہ بجائے خود بہت بڑی سند ہے۔
Top