معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1150
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ فِي اللَّيْلِ لَسَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ، يَسْأَلُ اللهَ خَيْرًا مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ» (رواه مسلم)
قبولیت دُعا کے خاص احوال و اوقات
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے کہ: "رات میں ایک خاص وقت ہے جو مومن بندہ اس وقت میں اللہ تعالیٰ سے دنیا یا آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرما دے گا۔ اور اس میں کسی خاص رات کی خصوصیت نہیں بلکہ اللہ کا یہ کرم ہر رات میں ہوتا ہے،" (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی وہ حدیث (معارف الحدیث کی جلد سوم میں) تہجد کے بیان میں صحیحین کے حوالہ سے ذکر کی جا چکی ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سماء دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور خود ان کی طرف سے پکار ہوتی ہے کہ کوئی ہے مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کروں، کوئی ہے بخشش چاہنے والا کہ میں اس کی بخشش کا فیصلہ کروں، کوئی ہے مجھ رات کا آخری حصہ ہے۔ واللہ اعلم۔ مندجہ بالا حدیثوں سے دعا کی قبولیت کے جو خاص احوال و اوقات معلوم ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: فرض نمازوں کے بعد، ختم قرآن کے بعد، اذان اور اقامت کے درمیان، میدانِ جہاد میں جنگ کے وقت، بارانِ رحمت کے نزول کے وقت، جس وقت کعبۃ اللہ آنکھوں کے سامنے ہو، ایسے جنگل بیابان میں نماز پڑھ کے جہاں خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہ ہو، میدانِ جہاد میں، جب کمزور ساتھیوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہو، اور رات کے آخری حصے میں۔ وہ حدیثیں اپنے موقع پر پہلے ذِکر کی جا چکی ہیں جن میں شبِ قدر میں اور عرفہ کے دن میدانِ عرفات میں اور جمعہ کی خاص ساعت میں اور روزہ کے افطار کے وقت، اور سفرِ حج اور سفر جہاد میں اور بیماری اور مسافری کی حالت میں دعاؤں کی قبولیت کی خاص توقع دلائی گئی ہے۔ لیکن یہ بات برابر ملحوظ رہنی چاہئے کہ دعا کا مطلب دعا کے الفاظ اور صرف اس کی صورت نہیں ہے بلکہ اس کی وہ حقیقت ہے جو پہلے ذکر کی جا چکی ہے، پودا اسی دانے سے اگتا ہے جس میں مغز ہو۔ اسی طرح آگے درج ہونے والی احادیث سے دعا کی قبولیت کا مطلب بھی سمجھ لینا چاہئے۔
Top