معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1172
عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَمْسَى قَالَ: «أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ اللَّيْلَةِ، وَخَيْرِ مَا فِيهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيهَا، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَسُوءِ الْكِبَرِ، وَفِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ»وَإِذَا أَصْبَحَ قَالَ ذَلِكَ أَيْضًا: «أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ الخ» (رواه مسلم)
صبح و شام کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب شام ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کرتے: "أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ الخ" (یہ شام اس حال میں ہو رہی ہے کہ ہم اور ساری کائنات اللہ ہی کے ہیں۔ ساری حمد و ستائش اسی اللہ کے لئے ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں، راج اور ملک اسی کا ہے، وہی لائق حمد و ثنا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! یہ آنے والی رات اور جو کچھ اس رات میں ہونے والا ہے میں اس کے خیر کا تجھ سے سائل ہوں، اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ پروردگار! تیری پناہ سستی اور کاہلی سے (جو اُمورِ خیر سے محرومی کا سبب بنتی ہے) تیری پناہ بالکلک نکما کر دینے والے بڑھاپے سے، اور کبر سنی سے بُرے اثرات سے، تیری پناہ دُنیا کے ہر فتنہ سے (اور یہاں کی ہر آزمائش سے) تیری پناہ قبر کے عذاب سے۔ اور جب صبح ہوتی ہے تو رسول اللہ ﷺ بس ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں عرض کرتے: "وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ الخ" (ہماری صبح اس حال میں ہو رہی ہے کہ ہم اور یہ ساری کائنات اللہ ہی کے ہیں الخ۔)۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس دعا میں اپنی ذات اور ساری کائنات کے اوپر اللہ تعالیٰ کی ملکیت کا اقرار اور اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی توحید کا اعلان ہے۔ پھر رات یا دن میں جو خیر اور برکتیں ہوں ان کا سوال ہے، اور جو کمزوریاں خیر و سعادت سے محرورمی کا سبب بن جاتی ہیں ان سے پناہ طلبی ہے۔ اور آخر میں دنیا کے ہر فتنہ اور عذابِ قبر سے پناہ مانگی گئی ہے۔ سبحان اللہ! کیسی جامع دُعا ہے اور اس میں اپنی بندگی اور نیاز مندی کا کیسا اظہار ہے۔
Top