معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1203
عَنْ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ دَخَلَ السُّوقَ، فَقَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ، بِيَدِهِ الخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ، وَرَفَعَ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَةٍ وبنى له بيتا في الجنة. (رواه الترمذى وابن ماجه)
بازار کی ظلمانی فضاؤں میں اللہ کے ذکر کا غیر معمولی ثواب
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جو بندہ بازار گیا اور اس نے (بازار کی غفلت اور شور و شر سے بھرپور فضا میں دل کے اخلاص سے کہا "لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ تا وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے ہزاروں ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور ہزاروں ہزار گناہ محو کر دئیے جائیں گے اور ہزاروں ہزار درجے اس کے بلند کر دئیے جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے جنت میں ایک شاندار محل تیار ہو گا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
بازار بلاشبہ غفلت اور معصیات کے مراکز اور شیاطین کے اڈے ہیں۔ پس اللہ کا جو باتوفیق بندہ وہاں کی ظلمانی اور شیطانی فضاؤں میں ایسے طریقے پر اور ایسے کلمات کے ساتھ اللہ کا ذکر کرے جن کے ذریعہ وہاں کے ظلمتوں کا پورا توڑ ہوتا ہو، وہ بلاشبہ اس کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس پر بےحد و حساب عنایت ہو۔ اس کے لئے ہزار نیکیوں کا لکھا جانا، ہزاروں ہزار گناہوں کا محو کیا جانا، اور ہزاروں ہزار درجے بلند ہونا، اور جنت میں ایک شاندار محل عطا ہونا اسی عنایتِ الٰہی کی تفصیلی تعبیر ہے۔ بازار میں آدمی کی نگاہ کے سامنے طرح طرح کی وہ چیزیں آتی ہیں جن کو دیکھ کر وہ خدا کو اور اپنے اور ساری دنیا کے فانی ہونے کو بھول جاتا ہے۔ یہ چیزیں اس کے دل کو اپنی طرف کھینچے لگتی ہیں۔ کسی چیز کو وہ سمجھتا ہے کہ یہ بڑی دلکش اور بڑی حسین ہے، کسی کو سمجھتا ہے کہ یہ بڑی نفع بخش ہے، کسی بڑے کامیاب تاجر یا صاحب دولت و حکومت کو دیکھ کر دل میں سوچنے لگتا ہے کہ اگر اس سے تعلق قائم کر لیا جائے تو سارے کام بن جائیں گے۔ بازار کی فضاؤں میں یہی وہ خیالات و وساوس ہوتے ہیں جو دلوں اور نگاہوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے علاوہ اور تحفظ کے لئے ہدایت فرمائی کہ بازار جاؤ تو یہ کلمہ توحید تمہاری زبانوں پر ہو: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ، بِيَدِهِ الخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللہ کے سوا کوئی قابلِ پرستش نہیں، اکیلا وہی معبود برحق ہے، کوئی اس کا شریک اور ساجھی نہیں، صرف اسی کا راج اور اسی کی فرمانروائی ہے، وہی حمد ستائش کے لائق ہے سب کی زندگی اور موت اسی کے قبصہ میں ہے اور وہ زندہ جاوید ہے، اسی کبھی فنا نہیں، ساری خیر اور بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے اور سب کچھ اسی کی قدرت میں ہے۔ یہ کلمہ ان گمراہانہ خیالات اور ان شیطانی وسوسوں پر براہِ راست ضرب لگاتا ہے جو بازار میں انسان کے دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کلمہ میں ان حقائق پر یقین کو تازہ کیا جاتا ہے: 1. الٰہ جو اس کا مستحق ہے کہ اس کو دل و جان سے چاہا جائے، اس کی عبادت کی جائے اور اپنا مطلوب و مقصودِ حقیقی بنایا جائے صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس استحقاق میں کوئی چیز اور کوئی ہستی اس کی شریک نہیں۔ 2.ساری کائنات میں صرف اسی کی فرمانروائی ہے، بلاشرکت غیرے اسی کا حکم چلتا ہے، وہی ساری کائنات کا مالک اور حاکم حقیقی ہے۔ 3. حمد و ستائش کے لائق بھی صرف وہی ہے، اس کے علاوہ اس کی مخلوق میں جو چیزیں دل یا نگاہ کو اچھی اور قابلِ تعریف نظر آتی ہیں وہ اس کی مخلوقات اور مصنوعات ہیں، ان کا حسن و جمال اسی کا عطیہ ہے۔ 4.اس کی اور صرف اسی کی شان "حی لا یموت" ہے، اس کے علاوہ ہر چیز فانی ہے، اور ہر ایک کی موت و حیات اور فنا و بقاء اسی کے ہاتھ میں ہے۔ 5. ہر خیر اور بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے، اس کے سوا کسی کے اختیار اور قبضہ میں کچھ نہیں۔ 6.وہ اور صرف وہی قادرِ مطلق ہے، ہر چیز اور ہر تبدیلی اسی کی قدرت میں ہے۔ بازارکی فضاؤں میں جو بندہ اللہ کو اس طرح یاد کرتا ہے وہ گویا شیاطین کی سرزمین میں اللہ کے نام کا علم بلند کرتا ہے اور گمراہی کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہدایت کی شمع جلا جاتا ہے۔ اس لئے بلاشبہ وہ اس غیر معمولی عنایت اور رحمت کا مستحق ہے جس کا اس حدیث پاک میں ذکر کیا گیا ہے۔ حدیث کے لفظ "الفِ الف" کا ترجمہ ہم نے بجائے دس لاکھ کے "ہزاروں ہزار" کیا ہے۔ ہمارے نزدیک ان شارحین کی رائے زیادہ قرینِ قیاس ہے جنہوں نے کہا ہے کہ یہاں یہ لفظ معین عدد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ غیر معمولی کثرت کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top