معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1215
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى بَعِيرِهِ خَارِجًا إِلَى سَفَرٍ، كَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ»، وَإِذَا رَجَعَ قَالَهُنَّ وَزَادَ فِيهِنَّ: «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» (رواه مسلم)
سفر پر جانے اور واپس آنے کے وقت کی دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور تھا کہ جب آپ ﷺ سفر پر جاتے وقت اونٹ پر سوار ہوتے تو پہلے تین دفعہ "اللہ اکبر" کہتے، اس کے بعد کہتے "سبحان الله تا فى الاهل والمال" (پاک اور مقدس ہے وہ ذات جس نے ہماری سواری کے لئے اپنی اس مخلوق کو مسخر اور ہمارے قابو میں کر دیا ہے، اور خود ہم میں اس کی طاقت نہ تھی کہ اپنی ذاتی تدبیر و طاقت سے اس طرح قابو یافتہ ہو جاتے (بلکہ اللہ ہی نے اپنے فضل و کرم سے ایسا کر دیا ہے) اور ہم بالآخر اپنے اس مالک کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ! ہم استدعا کرتے ہیں تجھ سے اپنے سفر میں نیکوکاری اور پرہیزگاری، اور ان اعمال کی جو تیری رضا کے باعث ہوں۔ اے اللہ! اس سفر کو ہم پر آسان کر دے اور اس کی طوالت کو اپنی قدرت و رحمت سے مختصر کر دے۔ اے اللہ! بس تو ہی ہمارا رفیق اور ساتھی ہے اس سفر میں (اور سب سے بڑا سہارا تیری ہی رفاقت کا ہے) اور ہمارے پیچھے تو ہی ہمارے اہل و عیال اور مال و جائیداد کی دیکھ بھال اور نگرانی کرنے والا ہے (اس سلسلہ میں بھی ہمارا اعتماد اور بھروسہ بس تجھ ہی پر ہے) اے اللہ! میں تیری پنام چاہتا ہوں سفر کی مشقت اور زحمت سے اور اس بات سے کہ اس سفر میں کوئی رنج دِہ بات دیکھوں، اور اس سفر سے لوٹ کر اہل و عیال یا مال و جائیداد میں کوئی بری بات پاؤں) اور جب آپ ﷺ سفر سے واپس ہوتے تب بھی اس کے حضور میں یہی دعا کرتے۔ اور آخر میں ان کلمات کا اضافہ کرتے "آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ"(ہم واپس لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، اپنے پروردگار کی حمد و ستائش کرنے والے ہیں)۔ (صحیح مسلم)

تشریح
دیس سے پردیس جانے والے کے لئے بہت سے خطرات اور طرح طرح کے امکانات ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ: سفر کے لئے روانہ ہوتے وقت اللہ سے کیا کیا مانگنا چاہئے نیز یہ کہ ہر سفر کے موقع پر یقینی پیش آنے والے آخرت کے سب سے اہم سفر کو بھی یاد کرنا چاہئے، اور اس کی تیاری سے غافل نہ ہونا چاہئے۔ تشریح ..... اس دعا کا ایک ایک جز اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ پہلی بات اس حدیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر سوار ہونے کے بعد سب سے پہلے تین دفعہ "اللہ اکبر" کہتے تھے۔ اس زمانہ میں خاص کر اونٹ جیسے سواری پر سوار ہونے کے بعد خود سوار کو اپنی بلندی و برتری کا جو احساس یا وسوسہ پیدا ہو سکتا تھے اسی طرح دیکھنے والوں کے دلوں میں اس کی عظمت و بڑائی کا جو خیال آ سکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ تین دفعہ "اللہ اکبر" کہہ کے اس پر تین ضربیں لگاتے تھے اور خود اپنے کو اور دوسروں کو جتاتے تھے کہ عظمت و کبریائی بس اللہ کے لئے ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ کہتے تھے: "سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ" (پاک اور مقدس ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اس سواری کو مسخر کر دیا، ورنہ ہم میں وہ طاقت نہ تھی کہ ایسا کر سکتے) اس میں اس کا مترادت اور اظہار ہے کہ اس سواری کو ہمارے لئے مسخر کر دینا اور ہم کو اس طرح اس کے استعمال کی قدرت دینا بھی اللہ ہی کا کرم ہے، ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ فرماتے ہیں: "وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ" (یعنی جس طرح آج ہم یہ سفر کر رہے ہیں اسی طرح ایک دن اس دنیا سے سفر کر کے ہم اپنے خدا کی طرف جائیں گے جو اصل مقصود و مطلوب ہے، وہی سفر حقیقی سفر ہو گا اور اس کی فکر اور تیاری سے بندے کو کبھی غافل نہ رہنا چاہئے اس کے بعد سب سے پہلی دعا آپ یہ کرتے کہ: "اے اللہ! اس سفر میں مجھے نیکی اور پرہیزگاری کی اور ان اعمال کی توفیق دے جن سے تو راضی ہو"۔ بلاشبہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے بندوں کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہی ہے، اس لئے ان کی اولین دعا یہی ہونی چاہئے۔ اس کے بعد آپ ﷺ سفر میں سہولت کی اور سفر جلدی پورا ہو جانے کی دعا کرتے۔ اس کے بعد آپ اللہ کے حضور میں عرض کرتے: "اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ" (یعنی اے اللہ تو ہی سفر مین میرا حقیقی رفیق و ساتھی ہے اور تریر ہی رفاقت و مدد پر میرا اعتماد ہے اور گھر بار اور اہل و عیال جن کو میں چھوڑ کر جا رہا ہوں ان کا نگہبان اور نگران بھی تو ہی ہے اور تیری ہی نگہبانی پر بھروسہ ہے۔ ان مثبت دعاؤں کے بعد آپ ﷺ سفر کی مشقت سے یا دورانِ سجر میں یا واپسی پر کسی تکلیف دہ حدثہ کے سامنے آنے سے پناہ مانگتے جس کا حاصل یہی ہے کہ سفر میں بھی تیری رحمت سے عافیت و سہولت نصیب رہے اور واپس آ کر بھی خیر و عافیت دیکھوں)۔ حدیث کے آخر میں بیان کیا گیا ہے کہ جب واپسی کے لئے آپ ﷺ سفر شروع فرماتے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں آپ ﷺ یہی سب کچھ عرض کتے اور آخر میں یہ کلمات مزید کہتے: "آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ" (یعنی اب ہم واپس ہو رہے ہیں، اپنے قصوروں اور لغزشوں سے توبہ کرتے ہیں، ہم اپنے پروردگار اور مالک ومولا کی عبادت اور حمد و ثناء کرتے ہیں) ذرا غور کیا جائے کہ جب سفر کے لئے سواری پر سوار ہوتے وقت رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک کی یہ واردات ہوتی تھیں، جو ان کلمات ے قالب میں زبانِ مبارک پر جاری ہوتی تھیں، تو خلوتوں کے خاص اوقات میں کیا حال ہوتا ہو گا۔ کیسی خوش نصیبی ہے اس امت کی جس کے پاس اس کے نبی کا چھوڑا ہوا ایسا خزانہ محفوظ ہے، اور کیسی قابلِ عبرت بدنصیبی ہے اس اُمت کے جس کے ۹۹ فیصد افراد یا اس سے بھی زیادہ اس سے بےخبر اور اس لئے اس استفادہ سے محروم ہیں۔
Top