معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1255
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ «اللهُمَّ إِنَّكَ تَسْمَعُ كَلَامِي، وَتَرَى مَكَانِي، وَتَعْلَمُ سِرِّي وعلانيتِي، لَا يَخْفَى عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ أَمْرِي، أَنَا الْبَائِسُ الْفَقِيرُ الْمُسْتَغِيثُ الْمُسْتَجِيرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنَبِهِ، أَسْأَلُكَ مَسْأَلَةَ الْمستكينِ وأَبْتَهِلُ إِلَيْكَ ابتهالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِيلِ، وَأَدْعُوكَ دُعَاءَ الْخَائِفِ الضَّرِيرِ مَنْ خَضَعَتْ لَكَ رَقَبَتُهُ وَفَاضَتْ لَكَ عَيْنَاهُ وذلَّ جَسَدُهُ وَرَغِمَ أَنْفُهُ لَكَ، اللهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي بدُعائِكَ شَقِيًّا، وَكُنْ بِي دَوْمًا رَحِيمًا، يَا خَيْرَ الْمَسْئُولينَ وَيَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ» (رواه الطبرانى فى الكبير)
عرفات کی دعا
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع میں عرفہ کی شام کو میدانِ عرفات میں رسول اللہ ﷺ کی خاص دعا یہ تھی: "اے اللہ! تو میری بات سنتا ہے، اور میں جہاں اور جس حال میں ہوں تو اس کو دیکھتا ہے، اور میرے ظاہر و باطن سے تو باخبر ہے، تجھ سے میری کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں۔ میں دُکھی ہوں، محتاج ہوں، فریادی ہوں، پناہ جو ہوں، ترساں ہوں، ہراساں ہوں، اپنے گناہوں کا اقراری ہوں۔ تجھ سے سوال کرتا ہوں جیسے کوئی عاجز مسکین بندہ سوال کرتا ہے۔ تیرے آگے گڑگڑاتا ہوں جیسے گنہگار ذلل و خوار گڑگڑاتا ہے، اور تجھ سے دعا کرتا ہوں جیسے کوئی خوف زدہ آفت زدہ آفت رسیدہ دعا کرتا ہے۔ اور اس بندے کی طرح مانگتا ہوں جس کی گردن تیرے سامنے جھکی ہوئی ہو اور آنسو بہہ رہے ہوں اور تن بدن سے وہ تیرے آگے فروتنی کئے ہوئے ہو اور اپنی ناک تیرے سامنےرگڑ رہا ہو۔ اے اللہ! تو مجھے اس دعا مانگنے میں ناکام اور نامراد نہ رکھ اور میرے حق میں بڑا مہربان نہایت رحیم ہو جا۔ اے ان سب سے بہتر و برتر جن سے مانگنے والے مانگتے ہیں اور جو مانگنے والوں کو دیتے ہیں"۔ (معجم کبیر للطبرانی)

تشریح
اس دعا کا ایک ایک لفظ عبدیت کی روح سے لبریز اور کمالِ معرفت کا ترجمان ہے۔ دنیا بھر کے دینی و مذہبی ادب میں اور کسی بھی زبان کی دعاؤں اور مناجاتوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ اس عاجز کو زندگی میں کئی دفعہ اس کا موقع ملا کہ بعض خدا پرست غیر مسلموں کو میں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا سنائی اور اس کا ترجمہ کر کے بتایا تو وہ اپنا یہ تاثر ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ دعا اسی دل سے نکل سکتی ہے جسے اللہ نے اپنے علم کا خاص حصہ دیا ہو اور اس کو معرفتِ نفس اور معرفتِ رب کا اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اس قیمتی ورثہ کی قدر شناسی اور اس سے استفادہ کی توفیق دے۔ خاص اوقات و مقامات اور خاص مواقع کی دعاؤں کا سلسلہ یہاں ختم ہوا۔ وَالْحَمْدُلِلهِ عَلَى ذَالِكَ.
Top