معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1259
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصِّحَّةَ، وَالْعِفَّةَ، وَالْأَمَانَةَ، وَحُسْنَ الْخُلُقِ، وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ» (رواه البيهقى فى الدعوات الكبير)
جامع اور ہمہ گیر دعائیں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصِّحَّةَ تا وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ" (اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں صحت و تندرستی اور عفت و پاکدامنی اور امانت کی صفت اور اچھے اخلاق اور راضی بہ تقدیر رہنا) (دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
اس دعا میں رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے صحت مانگی ہے۔ صحت و تندرستی دین و دنیا دونوں کے لحاظ سے بلاشبہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب کسی وقت بندہ اس سے محوررم کر دیا جاتا ہے اور کسی بیماری اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس وقت اسے معلوم ہوتا ہے کہ صحت کا ایک ایک لمحہ کتنی بڑی دولت اور اللہ تعالیٰ کی کتنی عظیم نعمت ہے۔ عارفین کو اس کا احساس اس لئے اور بھی زیادہ ہوتا ہے کہ صحت کی خرابی کی حالت میں اکثر و بیشتر عبادت کا نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے اور توجہ الی اللہ کا ذوق و کیف بھی متاثر ہوتا ہے، اور یہ چیز ان کے لئے شدید روحانی کرب اور بےچینی کا باعث بنتی ہے۔ امانت، قرآنی اور دینی زبان کا نہایت اہم اور وسیع المعنی لفظ ہے اس سے مراد انسان کے اندرون کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اور بندوں کے تعلق سے جو ذمہ داریاں ہیں وہ ان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی فکر اور کوشش کرے۔ حسن اخلاق اور راضی بہ تقدیر رہنا کسی تشریح کے محتاج نہیں۔ اس دعا میں رسول اللہ ﷺ نے صحت کے علاوہ عفت، امانت، حسن اخلاق اور رضا بالقدر کا سوال کیا ہے یہ سب ایمانی صفات اور ایمان کے اہم شعبے ہیں اور ان سے محرومی بلاشبہ بڑی محرومی ہے، اور ساری دینی اور دنیوی نعمتوں کی طرح یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا ہی سے کسی کو مل سکتے ہیں۔؎ ایں سعادت بزورِ بازو نیستگر نہ بخشد خدائے بخشندہ
Top