معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1302
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ» (رواه البخارى ومسلم)
دعوتِ استعاذہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ کی پناہ مانگو بلاؤں کی سختی سے، اور بدبختی کے لاحق ہونے سے اور بری تقدیر سے اور دشمنوں کی شماتت سے "۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ذخیرہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے جو دعائیں ماثور و منقول ہیں جو آپ ﷺ نے مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں خود کیں یا امت کو ان کی تعلیم و تلقین فرمائی ان میں زیادہ تر وہ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ سے کسی دنیوی یا اُخروی، روحانی یا جسمانی، انفرادی یا اجتماعی نعمت اور بھلائی کا سوال کیا گیا ہے اور مثبت طور پر کسی حاجت اور ضرورت کے لئے استدعا کی گئی ہے۔ ڈیڑھ سو سے کچھ اوپر جو دعائیں اس سلسلہ میں اب تک درج ہو چکی ہیں وہ سب اسی قبیل کی تھیں۔ ان کے علاوہ بہت سی ایسی دعائیں بھی آپ ﷺ سے مروی ہیں جن میں کسی خیر و نعمت اور کسی مثبت حاجت و ضرورت کے سوال کے بجائے دنیا یا آخرت کے کسی شر سے اور کسی بلا اور آفت سے پناہ مانگی گئی ہے اور حفاظت و بچاؤ کی استدعا کی گئی ہے۔ پھر جس طرح پہلی قسم کی دعاؤں کو مجموعی طور پر سامنے رکھ کر یہ کہنا برحق ہے کہ دنیا اور آخرت کی کوئی خیر اور بھلائی اور کوئی حاجت و ضرورت ایسی نہیں ہے جس کی دعا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے نہ کی ہو، اور امت کو تلقین نہ فرمائی ہو۔ اسی طرح دوسری قسم کی دعاؤں کو پیشِ نظر رکھ کر یہ کہنا بھی بالکل صحیح ہے کہ دنیا اور آخرت کا کوئی شر، کوئی فساد، کوئی فتنہ اور کوئی بلا اور آفت اس عالم وجود میں ایسی نہیں ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی پناہ نہ مانگی ہو اور امت کو اس کی تلقین نہ فرمائی ہو۔ غور کرنے اور سمجھنے والوں کے لئے رسول اللہ ﷺ کا نہایت روشن معجزہ ہے کہ آپ ﷺ کی دعائیں انسانوں کی دنیوی و اخروی، روحانی اور جسمانی، انفرادی اور اجتماعی ظاہری اور باطنی، مثبت اور منفی ساری ہی حاجتوں اور ضرورتوں پر حاوی ہیں اور کوئی خفی سے خفی اور دقیق سے دقیق حاجت نہیں بتائی جا سکتی جس کو آپ ﷺ نے بہتر سے بہتر پیرائے میں اللہ تعالیٰ سے نہ مانگا ہو، اور امت کو اس کے مانگنے کا طریقہ نہ سکھایا ہو۔ قرآن مجید میں بھی ان دونوں ہی قسموں کی یعنی مثبت اور منفی دعائیں موجود ہیں اور بالکل آخر کی دو مستقل سورتیں "قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ" اور "قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ" اول سے آخر تک منفی قسم کی دعا یعنی استعاذہ ہی پر مشتمل ہیں، اور اسی لئے ان کو "معوذتین" کہا جاتا ہے اور ان ہی پر قرآن مجید ختم ہوا ہے۔ قرآن پاک کے اس طریقے ہی کی پیروی میں یہ مناسب سمجھا گیا کہ جو احادیث ایسی دعاؤں پر مشتمل ہیں جن میں شرور و فتن اور بلیات سے اور برے اعمال و اخلاق اور ہر قسم کی ناپسندیدہ باتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے، اُن کو آخر میں درج کیا جائے اور ان ہی کو اس سلسلہ کا خاتمہ بنایا جائے۔ اب ذیل میں وہی حدیثیں پڑھئے: اس حدیث میں بظاہر تو چار چیزوں سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، لیکن فی الحقیقت دنیا اور آخرت کی کوئی برائی اور کوئی تکلیف اور کوئی مصیبت اور کوئی پریشانی ایسی نہیں سوچی جا سکتی جو ان چار عنوانوں کے احاطہ سے باہر ہو۔ ان میں سب سے پہلی چیز ہے: "جُهْدُ الْبَلَاءِ" (کسی بلا کی مشقت اور سختی) بلا ہر اس حالت کا نام ہے جو انسان کے لئے باعث تکلیف اور موجبِ پریشانی ہو، اور جس میں اس کی آزمائش ہو، یہ دینوی بھی ہو سکتی ہے اور دینی بھی، روحانی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی، انفرادی بھی ہو سکتی ہے اور اجتماعی بھی۔ الغرض یہ ایک ہی لفظ تمام مصائب اور تکالیف اور ا ٓفات و بلیات کو حاوی ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز جس سے پناہ مانگنے کی اس حدیث میں تلقین فرمائی گئی ہے، وہ ہے "دَرْكُ الشَّقَاءِ" (بدبختی کا لاحق ہونا) اور تیسری چیز ہے: "سُوْءُ الْقَضَاءِ" (بری تقدیر) ان دونوں کی جامعیت بھی بالکل ظاہر ہے، جس بندے کو ہر نوع کی بدبختی سے اور بری تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت حاصل ہو گئی بلاشبہ اسے سب کچھ مل گیا۔ آخری چیز جس سے پناہ مانگنے کی اس حدیث میں تلقین فرمائی گئی ہے وہ ہے "شَمَاتَةُ الْاَعْدَاءِ" (یعنی کسی مصیبت اور ناکامی پر دشمنوں کا ہنسنا) بلاشبہ دشمنوں کی شماتت اور طعنہ زنی بعض اوقات بڑی روحانی تکلیف و اذیت کا باعث ہوتی ہے، اس لئے اس سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کے لئے فرمایا، اگرچہ اس سے پہلے تین جامع عنوانات اس کو بھی حاوی تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ان چاروں چیزوں سے پناہ مانگنے کے لئے صحیح اور مناسب الفاظ یہ ہوں گے: اللهم إنى أعوذ بك مِنْ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بلا کی سختی سے اور بدبختی لاحق ہونے سے اور بری تقدیر سے اور دشمنوں کے ہنسنے اور ان کی طعنہ زنی سے۔
Top