معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1311
عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، أَنَّ رَسُولَ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَدْمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْغَرَقِ، وَالْحَرَقِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا» (رواه ابوداؤد والنسائى)
دعوتِ استعاذہ
ابوالیسر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ تا وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا" (اے اللہ! میں تیری پناہ مانگیا ہوں (اپنے اوپر کسی عمارت وغیرہ کے) ڈھے جانے سے اور (کسی بلندی کے اوپر) گر پڑنے سے اور (دریا وغیرہ میں) ڈوب جانے سے، اور آگ میں جل جانے سے، اور انتہائی بڑھاپے سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں، اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان مجھے وسوسوں میں مبتلا کردے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ میں میدانِ جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہوا مروں، اور پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ کسی زہریلے جانور کے ڈسنے سے مجھے موت آ جائے)۔ (سنن ابی داؤد، سنن نسائی)

تشریح
کسی دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مر جانا، اور اسی طرح کسی بلندی سے نیچے گر کر، یا دریا وغیرہ میں ڈوب کے، یا آگ میں جل کر یا کسی زہریلے جانور سانپ وغیرہ کے ڈسنے سے ختم ہو جانا، یہ سب صورتیں مفاجاتی اور ناگہانی موت کی ہیں۔ علاوہ اس کے کہ انسانی روح موت کی ان سب صورتوں سے فطری طور پر بہت زیادہ گھراتی ہے، ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان صورتوں میں مرنے والے کو موت کی تیاری، تجدید ایمان اور توبہ و استغفار وغیرہ کا موقع نہیں ملتا (جو موت کی دوسری عام شکلوں میں عموماًً مل جاتا ہے) اس لئے ایک مومن کو موت کی ان سب ناگہانی صورتوں سے پناہ ہی مانگنا چاہئے۔ اسی طرح اس سے بھی پناہ مانگنا چاہئے کہ میدانِ جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے موت آئے ’ اللہ کی نگاہ میں یہ نہایت سنگین جرم ہے، علیٰ ہذا اس سے بھی پناہ مانگتے رہنا چاہئے کہ موت کے وقت شیطان وسوسہ اندازی کے ذریعہ ہم کو گڑبڑا سکے اور گمراہ کر سکے۔ خاتمہ ہی کے اچھے یا برے ہونے پر سارا دار و مدار ہے۔ موت کی جن ناگہانی صورتوں سے اس دعا میں پناہ مانگی گئی ہے، دوسری حدیثوں میں اس قسم کے حوادث سے مرنے والوں کو شہادت کی بشارت سنائی گئی ہے، اور ان کو شہید قرار دیا گیا۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے۔ اپنی بشری کمزوری کے لحاظ وسے موت کی ان سب صورتوں سے ہمیں اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے لیکن جب تقدیر الٰہی سے کسی بندے کو اس طرح سے موت آ جائے تو ارحم الراحمین کی رحمت پر نگاہ رکھتے ہوئے توقع رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مفاجاتی موت ہی کی وجہ سے اس کو "اعزازی شہادت" کا مقام عطا فرمائے گا۔ اور اگر عقائد و اعمال کے حساب سے کچھ بھی گنجائش ہو گی تو یقینا رب کریم کی طرف سے ایسا ہی ہو گا۔ "إِنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ"
Top