معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1316
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي اليَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً» (رواه البخارى)
توبہ و استغفار بلند ترین مقام: توبہ و استغفار کے باب میں رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہوں"۔ (صحیح بخاری)

تشریح
دُعا ہی کی ایک خاص قسم استغفار ہے، یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی اور بخشش مانگنا اور تونہ کرنا گویا اس کے لوازم میں سے ہے، بلکہ یہ دونوں ہی آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ جو گناہ اور نافرمانی یا ناپسندیدہ عمل بندے سے سرزد ہو جائے اس کے برے انجام کے خوف کے ساتھ اس پر اسے دِلی رنج و ندامت ہو، اور آئندہ کے لئے اس سے بچے رہنے اور دور رہنے کا اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضاس جوئی کا وہ عزم اور فیصلہ کرے۔ ظاہر ہے کہ جب یہ توبہ والی کیفیت نصیب ہو گی تو جو گناہ سرزد ہو چکے ہیں بندہ اللہ تعالیٰ سے ان کی معافی اور بخشش کی استدعا بھی ضرور کرے گا، تا کہ ان کی سزا اور برے انجام سے بچ سکے۔ اور اسی طرح جب سزا اور عذاب کے خوف سے معافی اور بخشش مانگے گا تو اس کو گناہ پر رنج و افسوس اور آئندہ کے لئے اس کے پاس نہ جانے کا عزم بھی ضرور ہو گا۔ اسی بناء پر کہا گیا ہے کہ فی الحقیقت یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ توبہ و استغفار کی حقیقت اس مثال سے اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ کوئی آدمی مثلاً غصہ کی حالت میں خودکشی کے ارادہ سے زہر کھا لے، اور جب وہ زہر اندر پہنچ کر اپنا عمل شروع کرے اور آنتیں کٹنے لگیں اور وہ ناقابل برداشت تکلیف اور بےچینی ہونے لگے جو زہر کے نتیجہ میں ہوتی ہے، اور موت سامنے کھڑی نظر آ ئے تو اس کو اپنی اس احمقانہ حرکت پر رنج و افسوس ہو اور اس وقت وہ چاہے کہ کسی بھی قیمت پر اس کی جان بچ جائے، اور جو دوا حکیم یا داکٹر اسے بتائیں وہ اسے استعمال کرے اور اگر قے کرنے کے لئے کہیں تو قے لانے کے لئے بھی ہر تدبیر اختیار کرے۔ یقیناً اس وقت وہ پوری صدق دلی کے ساتھ یہ بھی فیصلہ کرے گا کہ اگر میں زندہ بچ گیا تو آئندہ کبھی ایسی حماقت نہیں کروں گا۔ بالکل اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ کبھی کبھی صاحبِ ایمان بندہ غفلت کی حالت میں اغواءِ شیطانی یا خود اپنے نفسِ امارہ کے تقاضے سے گناہ کر بیٹھتا ہے، لیکن جب اللہ کی توفیق سے اس کا ایمانی حاسہ بیدار ہوتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے اپنے مالک و مولیٰ کی نافرمانی کر کے اپنے کو ہلاک کر ڈالا، اوراللہ کی رحمت و عنایت اور اس کی رضا کے بجائے میں اس کے غضب اور عذاب کا مستحق ہو گیا اور اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو قبر میں اور اس کے بعد حشر میں مجھ پر کیا گزرے گی اور وہاں اپنے مالک کو کیا منہ دکھاؤں گا اور آخرت کا عذاب کیسے برداشت کر سکوں گا۔ الغرض جب توفیقِ الٰہی سے اس کے اندر یہ فکر و احساس پیدا ہوتا ہے تو وہ یہ یقین و عقیدہ رکھتے ہوئے کہ میرا مالک و مولیٰ بڑا رحیم و کریم ہے، معافی مانگنے پر بڑے سے بڑے گناہوں، قصوروں کو وہ بڑی خوشی سے معاف فرما دیتا ہے، وہ اس سے معافی اور بخشش کی استدعا کرتا ہے اور اسی کو گناہ کے زہر کا علاج سمجھتا ہے۔ نیز اس کے ساتھ وہ آئندہ کے فیصلہ کرتا ہے کہ اب کبھی اپنے مالک کی نافرمانی نہیں کروں گا اور کبھی اس گناہ کے پاس نہیں جاؤں گا۔ بس بندے کے اسی عمل کا نام استغفار اور توبہ ہے۔ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مقبولین و مقربین کے مقامات میں سب سے بلند مقام عبدیت اور بندگی کا ہے، اور دعا چونکہ عبدیت اور بندگی کا سب سے اعلیٰ مظہر ہے، بلکہ ارشادِ نبویﷺ کے مطابق "مُخُّ العِبَادَةِ" (یعنی بندگی اور عبادت کا مغز اور جوہر ہے) اس لئے انسانی اعمال و احوال میں سب سے اکرم و اشرف دعا ہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اپنے موقع پر درج ہو چکا ہے: "لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللهِ مِنَ الدُّعَاءِ" (اللہ کے یہاں کوئی چیز دعا سے زیادہ عزیز اور قیمتی نہیں ہے)۔ اور استغفار و توبہ کے وقت بندہ چونکہ اپنی گنہگاری اور تقصیر کے احساس کی وجہ سے انتہائی ندامت اور احساسِ پستی کی حالت میں ہوتا ہے، اور گناہ کی گندگی کی وجہ سے مالک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا، اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لئے توبہ کرتا ہے، اس لئے بندگی اور تذلل اور گنہگاری و قصورواری کے احساس کی جو کیفیت استغفار و توبہ کے وقت میں ہوتی ہے وہ کسی دوسری دعا کے وقت میں نہیں ہوتی بلکہ نہیں ہو سکتی اس بناء پر استغفار و توبہ دراصل اعلیٰ درجہ کی عبادت اور قربِ الٰہی کے مقامات میں بلند ترین مقام ہے، اور توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لئے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے۔ وہ حدیثیں آگے آئیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ خود رسول اللہ ﷺ ہر وقت توبہ و استغفار کرتے تھے۔ اوپر کی سطروں میں توبہ و استغفار کے متعلق جو کچھ عرض کیا گیا اس کی روشنی میں آنحضرتﷺ کے اس کثرتِ استغفار کی وجہ آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے۔ دراصل یہ خیال بہت ہی عامیانہ اور غلط ہے کہ استغفار و توبہ عاصیوں اور گنہگاروں ہی کا کام ہے، اور انہی کو اس کی ضرورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے خاص مقرب بندے یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام جو گناہوں سے محفوظ و معصوم ہوتے ہیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق بالکل ادا نہ ہو سکا، اس لئے وہ برابر توبہ و استغفار کرتے ہیں، اور اپنے ہر عمل کو حتیٰ کہ اپنی نمازوں تک کو قابلِ استغفار سمجھتے ہیں۔ اس سلسلہ کی تیسری جلد "کتاب الصلوٰۃ" میں حضرت ثوبان ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ کہتے تھے: "أَسْتَغْفِرُ اللهَ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ " (یعنی اے اللہ میں تجھ سے بخشش و معافی چاہتا ہوں) نماز کے بعد آپ ﷺ کا یہ استغفار اسی بنیاد پر ہوتا تھا کہ آپ ﷺ محسوس کرتے تھے کہ نماز کا حق ادا نہیں ہوا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال توبہ و استغفار عاصیوں اور گنہگاروں کے لئے مغفرت و رحمت کا ذریعہ اور مقربین و معصومین کے لئے درجاتِ قرب و محبوبیت میں بےانتہا ترقی کا وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کا فہم و یقین اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ اس تمہید کے بعد استغفار و توبہ سے متعلق احادیث پڑھئے۔ اور سب سے پہلے وہ احادیث پڑھئے جن میں توبہ و استغفار کے باب میں خود رسول اللہ ﷺ کا معمول ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور جلال و جبروت کے بارے میں جس بندے کو جس درجہ کا شعور و احساس ہو گا وہ اسی چرجہ میں اپنے آپ کو اداءِ حقوقِ عبودیت میں قصوروار سمجھے گا، اور رسول اللہ ﷺ کو چونکہ یہ چیز بدرجہ کمال حاصل تھی اس لئے آپ ﷺ پریہ احساس غالب رہتا تھا کہ عبودیت کا حق ادا نہ ہو سکا، اسی واسطے آپ ﷺ بار بار اور مسلسل توبہ و استغفار فرماتے تھے۔ اور اس کا اظہار فرما کر دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔
Top