معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1323
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنَّهُ قَالَ حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ: كُنْتُ كَتَمْتُ عَنْكُمْ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «لَوْلَا أَنَّكُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللهُ خَلْقًا يُذْنِبُونَ يَغْفِرُ لَهُمْ» (رواه مسلم)
غفاریت کے ظہور کے لئے گناہوں کی ضرورت
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے قت فرمایا کہ: میں نے ایک بات رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی اور تم سے اب تک چھپائی تھی (اب جبکہ میرا ٓخری وقت ہے وہ میں تم کو بتاتا ہوں اور وہ امانت تمہارے سپرد کرتا ہوں) میں نے حضور ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے اگر بالفرض تم سب (ملائکہ کی طرح) بےگناہ ہو جاؤ اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو، تو اللہ اور مخلوق پیدا کرے گا جن سے گناہ بھی سرزد ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا (اور اس طرح اسکی شانِ غفاریت کا اظہار ہو گا)

تشریح
اس حدیث سے یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کو معاذ اللہ گناہ مطلوب ہیں اور وہ گناہگاروں کو پسند فرماتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ گناہوں اور گناہگاروں کی ہمت افزائی ہے، بڑی جاہلانہ غلط فہمی ہو گی۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو گناہوں سے بچایا جائے اور اعمالِ صالحہ کی ترغیب دی جائے۔ دراصل حدیث کا منشاء اور مدعا اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاریت کو ظاہر کرنا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت کے ظہور کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق پیدا کی جائے اور فرمائے۔ علیٰ ہذا جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفتِ ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس میں ہدایت لینے کی صلاحیت ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو ہدایت ملے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاریت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جس سے گناہ بھی سرزد ہوں پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار کرے اور گناہوں کی معافی اور بخشش چاہے، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ فرمائے۔ اس لئے ناگزیر ہے اور ازل سے طے ہے کہ اس دنیا میں گناہ کرنے والے بھی ہوں گے اُن میں سے جن کو توفیق ملے گی وہ استغفار بھی کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ بھی فرمائے گا اور اس طرح اس کی صفتِ مغفرت اور شانِ غفاریت کا ظہور ہو گا۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے حضور ﷺ کے اس ارشاد کا اپنی زندگی میں اس خیال سے کبھی تذکرہ نہیں کیا کہ کم فہم لوگ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں پھر اپنے آخری وقت میں اپنے خاص لوگوں سے اظہار فرما کر امانت گویا اُن کے سپرد کر دی۔ یہی مضمون الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے۔
Top