معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1324
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَبْدًا أَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ فَاغْفِرْهُ، فَقَالَ رَبُّهُ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا، َقَالَ: رَبِّ أَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْهُ، فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، ثُمَّ مَكَثَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَذْنَبَ ذَنْبًا، قَالَ: قَالَ: أَذْنَبْتُ ذَنْبًا آخَرَ فَاغْفِرْهُ لِي، فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِي أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي فَلْيَفْعَلْ مَا شَاءَ " (رواه البخارى ومسلم)
بار بار گناہ اور بار بار استغفار کرنے والے
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:اللہ کے کسی بندے نے کوئی گناہ کیا پھر اللہ سے عرض کیا اے میرے مالک! مجھ سے گناہ ہو گیا، مجھے معاف فرما دے! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہوں پر پکڑ بھی سکتا ہے، اور معاف بھی کر سکتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کا گناہ بخش دیا اور اس کو معاف کر دیا۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا وہ بندہ گناہ سے رُکا رہا، اور پھر کسی وقت گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ سے عرض کیا میرے مالک! مجھ سے گناہ ہو گیا تواس کو بخش دے اور معاف فرما دے، تو اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہ و قصور معاف بھی کر سکتا ہے اور پکڑ بھی سکتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کا گناہ معاف کر دیا۔ اس کے بعد جب تک اللہ نے چاہا وہ بندہ گناہ سے رُکا رہا، اور کسی وقت پھر گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے مالک و مولیٰ! مجھ سے گناہ ہو گیا تو مجھے معاف فرما دے اور میرا گناہ بخش دے! تو اللہ تعالیٰ نے پھر ارشاد فرمایا کہ میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا کوئی مالک و مولیٰ ہے جو گناہ معاف بھی کرتا ہے، اور سزا بھی دے سکتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اب جو اس کا جی چاہا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بار بار گناہ اور بار بار استغفار کرنے والے جس بندے کا واقعہ بیان فرمایا ہے، بعض شارحین نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ ﷺ ہی کا کوئی امتی ہو اور ممکن ہے کہ انبیاء سابقین میں سے کسی کا امتی ہو، لیکن اس عاجز کے نزدیک زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ کسی خاص اور معین واقعہ کا بیان نہیں ہے، بلکہ ایک کردار کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لاکھوں کروڑوں بندے ہوں گے جن کا حال اور کردار یہی ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان کے باوجود اُن سے گناہ ہو جاتا ہے، اور پھر وہ نادم و پشیمان ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں استغفار کرتے ہیں، اور اس کے بعد بھی ان سے بار بار گناہ سرزد ہوتے ہیں، اور وہ ہر بار سچے دل سے استغفار کرتے ہیں، ایسے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی کریمانہ معاملہ ہے جو اس حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے۔ آخری دفعہ کے استغفار اور اس پر معافی کے اعلان کے ساتھ فرمایا گیا ہے: "غَفَرْتُ لِعَبْدِي فَلْيَفْعَلْ مَا شَاءَ"(یعنی میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اب اس کا جو جی چاہے کرے) اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اب اس کو گناہوں کی بھی اجازت دیدی گئی ہے، بلکہ ان الفاظ میں بندے کے مالک و مولیٰ کی طرف سے صرف اس لطف و کرم کا اعلان فرمایا گیا ہے کہ: اے بندے تو جتنی بار بھی گناہ کر کے اس طرح استغفار کرتا رہے گا میں تجھے معافی دیتا رہوں گا اور تو اپنے اس صادق و مؤمنانہ استغفار کی وجہ سے گناہوں کے زہر سے ہلاک نہ ہو گا، بلکہ یہ استغفار ہمیشہ تریاق کا کام کرتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جن بندوں کا کچھ ذوق نصیب فرمایا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ مومن بندے کے ضمیر پر ایسے کریمانہ اعلان کا کیا اثر پڑے گا، اور اس کے دل میں مالک کی کامل وفاداری اور فرنبرداری کا کیسا جذبہ اُبھرے گا۔ اس حدیث کی صحیح مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث کا یہ پورا مضمون اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے بیان فرمایا۔ اس روایت کی بناء پر یہ "حدیث قدسی" ہے۔
Top