معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1326
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ» (رواه الترمذى وابن ماجه)
کس وقت تک کی توبہ قابلِ قبول ہے
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک غرغرہ کی کیفیت شروع نہ ہو۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
موت کے وقت جب بندے کی روح جسم سے نکلنے لگتی ہے تو حلق کی نالی میں ایک قسم کی آواز پیدا ہو جاتی ہے، جسے عربی میں "غرغرہ" اور اردو میں "خرہ چلنا" کہتے ہیں۔ اس کے بعد زندگی کی کوئی آس اور امید نہیں رہتی، یہ موت کی قطعی اور آخری علامت ہے۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ غرغرہ کی اس کیفیت کے شروع ہونے سے پہلے پہلے بندہ اگر توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ غرغرہ کی کیفیت شروع ہونے کے بعد آدمی کا رابطہ اور تعلق اس دنیا سے کٹ کر دوسرے عالم سے جُڑ جاتا ہے، اس لئے اس وقت اگر کوئی کافر اور منکر ایمان لائے یا کوئی نافرمان بندہ گناہوں اور نافرمانیوں سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ قبول نہ ہو گا۔ ایمان اور توبہ اسی وقت تک کی معتبر اور قابلِ قبول ہے جب تک زندگی کی آس اور امید ہو، اور موت آنکھوں ے سامنے نہ آ گئی ہو۔ قرآنِ پاک میں بھی صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے: وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں جو برابر گناہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو تو کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔ حدیث کے مضمون کا ماخذ بظاہر یہی آیت ہے اور اس کا پیغام یہی ہے کہ: بندے کو چاہئے کہ توبہ کے معاملہ میں ٹال مٹول نہ کرے، معلوم نہیں کس وقت موت کی گھڑی آ جائے اور خدانخواستہ توبہ کا وقت ہی نہ ملے۔
Top