معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1331
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ، فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ؟ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللهَ فَاعْبُدِ اللهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ، فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللهِ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ، فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ، فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ: قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ، فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ " (رواه البخارى ومسلم واللفظ له)
توبہ و انابت سے بڑے سے بڑے گناہوں کی معافی: سو آدمیوں کا قاتل سچی توبہ سے بخش دیا گیا
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ تم سے پہلے کسی امت میں ایک آدمی تھا جس نے اللہ کے ننانوے بندے قتل کئے تھے (ایک وقت اس کے دل میں ندامت اور اپنے انجام اور آخرت کی فکر پیدا ہوئی) تو اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس علاقہ میں سب سے بڑا عالم کون ہے (تا کہ اس سے جا کر پوچھے کہ میری بخشش کی کیا صورت ہو سکتی ہے) لوگوں نے اس کو ایک راہب (کسی بزرک درویش) کے بارے میں بتایا۔ چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کہ میں (ایسا بدبخت ہوں) جن نے ننانوے خون کئے ہیں، تو کیا ایسے آدمی کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ (اور وہ بخشا جا سکتا ہے؟) اس راہب بزرگ نے کہا: بالکل نہیں، تو ۹۹ آدمیوں کے اس اس قاتل نے اس بزرگ راہب کو بھی قتل کر ڈالا اور سو کی گنتی پوری کر دی (لیکن پھر اس کے دل میں وہی خلش اور فکر پیدا ہوئی) اور پھر اس نے کچھ لوگوں سے کسی بہت بڑے عالم کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے اس کو کسی بزرگ عالم کا پتہ بتا دیا، وہ ان کے پاس بھی پہنچا اور کہا کہ: میں نے سو خون کئے ہیں تو کیا ایسے مجرم کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے (اور وہ بخشا جا سکتا ہے؟) انہوں نے کہا: ہاں ہاں! (ایسے کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے) اور کون ہے جو اس کے اور توبہ کے درمیان حائل ہو سکے۔ (یعنی کسی مخلوق میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اس کی توبہ کو قبول ہونے سے روک دے۔ پھر انہوں نے کہا میں تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ) تو فلاں بستی میں چلا جا، وہاں اللہ کے عبادت گزار کچھ بندے رہتے ہیں تو بھی (وہیں جا پڑ اور) ان کے ساتھ عبادت میں لگ جا (اس بستی پر خدا کی رحمت برستی ہے) اور پھر وہاں سے کبھی اپنی بستی میں نہ آ، وہ بڑی خراب بستی ہے۔ چنانچہ وہ اس دوسری بستی کی طرف چل پڑا۔ یہاں تک کہ جب آدھا راستہ اس نے طے کر لیا تو اچانت اس کو موت آ گئی۔ اب اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں نزاع ہوا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے آیا ہے اور اس نے صدقِ دل سے اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیا ہے (اس لئے یہ رحمت کا مستحق ہو چکا ہے) اور عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کبھی بھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ہے (اور یہ سو خون کر کے آیا ہے اس لئے یہ سخت عذاب کا مستحق ہے) اس وقت ایک فرشتہ (اللہ کے حکم سے) آدمی کی شکل میں آیا، فرشتوں کے دونوں گروہوں نے اس کو حکم مان لیا۔ اس نے فیصلہ دیا کہ دونوں بستیوں تک کے فاصلہ کی پیمائش کر لی جائے (یعنی شر و فساد اور خدا کے عذاب والی وہ بستی جس سے وہ چلا تھا اور اللہ کے عبادت گزار بندوں والی وہ قابلِ رحمت بستی جس کی طرف وہ جا رہا تھا) پھر جس بستی سے وہ نسبتا ً اس بستی سے قریب ہو اس کو اسی کا مان لیا جائے، چنانچہ پیمائش کی گئی تو وہ نسبتاً اس بستی سے قریب پایا گیا جس کے ارادہ سے وہ چلا تھا، تو رحمت کے فرشتوں نے اس کو اپنے حساب میں لے لیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت بے حد وسیع ہے، اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ توبہ کرنے اور معافی مانگنے پر بڑے سے بڑا گناہ معاف فرما دیتا ہے، اور بڑے سے بڑے پاپیوں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے۔ اگرچہ اس میں قہر و جلال کی صفت بھی ہے، اور یہ صفت بھی اس کی شانِ عالی کے مطابق بدرجہ کمال ہے، لیکن وہ انہی مجرموں کے لئے ہے جو جرائم اور گناہ کرنے کے بعد بھی توبہ کر کے اس کی طرف رجوع نہ ہوں اور اس سے معافی اور مغفرت نہ مانگیں، بلکہ اپنے مجرمانہ رویہ ہی پر قائم رہیں اور اسی حال میں دنیا سے چلے جائیں۔ مندرجہ ذیل حدیثوں کا یہی مدعا اور یہی پیغام ہے۔ تشریح ..... یہ حدیث دراصل صرف ایک جزئی واقعہ کا بیان نہیں ہے بلکہ اس پیرائے میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کی وسعت اور اس کے کمال کو بیان فرمایا ہے، اور اس کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ بڑے سے بڑا گنہگار اور پاپی بھی اگر سچے دل سے اللہ کے حضور میں توبہ اور آئندہ کے لئے فرمانبرداری والی زندگی اختیار کرنے کا ارادہ کر لے تو وہ بھی بخش دیا جائے گا اور ارحم الراحمین کی رحمت بڑھ کر اس کو اپنے آغوش میں لے لے گی، اگرچہ اس توبہ و انابت کے بعد وہ فوراً ہی اس دنیا سے اُٹھا لیا جائے اور اسے اس کو اپنے آغوش میں لے لے گی، اگرچہ اس توبہ و انابت کے بعد وہ فوراً ہی اس دنیا سے اٹھا لیا جائے اور اسے کوئی نیک عمل کرنے کا موقع بھی نہ ملے اور اس کا اعمال نامہ اعمالِ صالحہ سے بالکل خالی ہو۔ اس حدیث کے مضمون پر ایک علمی اور اصولی اشکال بھی کیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ "ناحق قتل" ان گناہوں میں سے ہے جن کا تعلق صرف اللہ ہی سے نہیں بلکہ حقوق العباد سے بھی ہے جس مجرم اور قاتل نے کسی بندے کو ناحق قتل کیا، اس نے اللہ کی نافرمانی کے علاوہ اس مقتول بندے پر اور اس کے بیوی بچوں پر بھی ظلم کیا اور مسلمہ اصول یہ ہے کہ اس طرح کے مظالم صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے، بلکہ ان کے لئے مظلوم بندوں سے معاملہ صاف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ شارحین نے اس کا یہ جواب دیا ہے اور صحیح جواب دیا ہے کہ بےشک اصول اور قانون یہی ہے، لیکن مظلوموں کے حق کی ادائیگی اور ان سے معاملہ صاف کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں ان پر ظلم کرنے والے اور پھر اس ظلم سے سچی اور گہری توبہ کرنے والے بندوں کی طرف سے ان کے مظلوموں کو اپنے خزانہ رحمت سے دے کر راضی کر دے۔ اس حدیث میں سو خون کرنے والے جس تائب بندے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ یہی کرے گا، اور اس کی طرف سے اس کے مقتولوں اور سب مظلوموں کو کو اپنے خزانہ رحمت سے اتنا دے دے گا کہ وہ راضی ہو جائیں گے۔ اور یہ سو خون کرنے والا تائب بندہ اللہ کی رحمت سے سیدھا جنت میں چلا جائے گا۔
Top