معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1339
عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لأُمَّتِي {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ} فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمُ الاِسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ. (رواه الترمذى)
استغفار پوری اُمت کے لئے امان
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے دو امانیں مجھ پر نازل فرمائیں (سورہ انفال میں ارشاد فرمایا گیا) "وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ الاية" (یعنی اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تم ان کے درمیان موجود ہو اور ان پر عذاب نازل کر دے، اور اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں گے اور معافی و مغفرت مانگتے ہوں گے) آپ ﷺ نے فرمایا: پھر جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لئے تمہارے درمیان استغفار کو (بطور امان) چھوڑ جاؤں گا۔ (جامع ترمذی)

تشریح
سورہ انفال کی آیت نمبر ۳۳ "وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ" جس کا اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حوالہ دیا ہے اس کا مدعا اور مقتضا یہ ہے کہ ایک تو خود آپ ﷺ کے ذات اور آپ ﷺ کا وجود امت کے لئے عذاب سے امان ہے، جب تک آپ ﷺ ان میں موجود ہیں ان پر عذابِ عام نازل نہیں کیا جائے گا۔ اور دوسری چیز جو ان کے لئے وسیلہ امان ہے وہ خود ان کا استغفار ہے جب تک یہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت مانگتے رہیں گے اور استغفار کرتے رہیں گے عذابِ عام سے ہلاک نہیں کئے جائیں گے۔ گویا ایک امان خود آپ ﷺ کا وجود تھا، جس سے امت آپ ﷺ کی وفات کے بعد محروم ہو گئی۔ دوسری امام خود آپ ﷺ کی امت کو ہی کے ذریعہ ملا ہے، اور وہ قیامت تک باقی رہے گا۔ اور امت انتہائی بداعمالیوں کے باوجود عذابِ عام سے آج تک محفوظ ہے، یہ استغفار کرنے والے بندوں کے استغفار ہی کی برکت ہے۔
Top