معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1353
عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لاَ يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ. (رواه الترمذى)
درود شریف دُعا کی قبولیت کا وسیلہ
حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: دعا آسمان اور زمین کے درمیان ہی رکی رہتی ہے اوپر نہیں جا سکتی جب تک کہ نبی پاکﷺ پر درود نہ بھیجا جائے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
وہ حدیث "آداب دعا" کے ذیل میں (صفحہ ۹۹پر) گزر چکی ہے۔ جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دُعا کرنے والے کو چاہئے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی حاجت عرج کرے۔ حضرت عمر ؓ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ دعا کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجنی چاہئے، وہ دعا کی قبولیت کا خاص وسیلہ ہے۔ "حصن حصین" میں شیخ ابو سلیمان دارانیؒ سے نقل کیا گیا ہے انہوں نے فرمایا کہ درود شریف (جو رسول اللہ ﷺ کے حق مین ایک اعلیٰ و اشرف دعا ہے) وہ تو اللہ تعالیٰ ضرور ہی قبول فرماتا ہے، پھر جب بندہ اپنی دعا سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ سے حضور ﷺ کے حق میں دعا کرے اور اس کے بعد بھی دعا کرے تو اس کے کرم سے یہ بہت ہی بعید ہے کہ وہ اول و آخر کی دعائیں تو قبول کر لے اور درمیان کی اس بےچارے کی دعا رد کر دے، اس لئے پوری امید رکھنی چاہئے کہ جس دعا کے اول و آخر رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجی جائے گی وہ ان شاء اللہ ضرور قبول ہو گی۔ مندرجہ بالا روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ بات (جو انہوں نے دعا کی قبولیت کے بارے میں فرمائی) رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی، لیکن چونکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی شخص اپنی رائے اور فہم سے ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا، بلکہ اللہ کے پیغمبر ﷺ سے سُن کے ہی ایسی بات کہی جا سکتی ہے، اس لئے محدثین کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ روایت حدیث مرفوع ہی کے حکم میں ہے۔
Top