معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1356
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ» (رواه ابو دؤد والبيهقى فى الدعوات الكبير)
دنیا میں کہیں بھی درود بھیجا جائے ، رسول اللہ ﷺ کو پہنچتا ہے
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جب کوئی مجھ پر سلام بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر واپس فرمائے گا تا کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دوں۔ (سنن ابی داؤد دعوات کبیر للبیہقی)

تشریح
حدیث کے ظاہری الفاظ "إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي" سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی روحِ مبارک جسدِ اطہر سے الگ رہتی ہے، جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے جسد اطہر میں روحِ مبارک کو لوٹا دیتا ہے تا کہ آپ سلام کا جواب دے سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی، اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں دفعہ آپ ﷺ کی روحِ مبارک جسمِ اقدس میں ڈالی اور نکالی جاتی ہے، کیوں کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے لاکھوں کروڑوں اُمتی آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام نہ بھیجتے ہوں۔ روضہ اقدس پر حاضر ہو کر سلام عرض کرنے والوں کا بھی ہر وقت تانتا بندھا رہتا ہے، اور عام دنوں میں بھی ان کا شمار ہزاروں سے کم نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبور میں زندہ ہونا ایک مسلم حقیقت ہے۔ اگرچہ اس حیات کی نوعیت کے بارے میں علماء امت کی رائیں مختلف ہیں، لیکن اتنی بات سب کے نزدیک مسلم اور دلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خاص کر سید الانبیاء ﷺ کو اپنی قبور میں حیات حاصل ہے اس لئے حدیث کا یہ مطلب کسی طرح نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ کا جسدِ اطہر روح سے خالی رہتا ہے اور جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دلوانے کے لئے اس میں روح ڈال دیتا ہے۔ اس بناء پر اکثر شارحین نے "رد روح" کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قبرِ مبارک میں آپ ﷺ کی روحِ پاک کی تمام تر توجہ دوسرے عالم کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی جمالی و جلالی تجلیات کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے (اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے) پھر جب کوئی اُمتی سلام عرض کرتا ہے اور وہ فرشتہ کے ذریعہ یا براہ راست آپ ﷺ تک پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپ ﷺ کی روح اس طرف بھی متوجہ ہوتی ہے اور آپ ﷺ سلام کا جواب دیتے ہین، بس اس روحانی توجہ و التفات کو "رد روح" سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ عاجز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اس بات کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عالمِ برزخ کے معاملات و احوال سے کچھ مناسبت رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان حقائق کی معرفت نصیب فرمائے۔ اس حدیث کا خاص پیغام یہ ہے کہ جو امتی بھی اخلاصِ قلب سے آپ ﷺ پر سلام بھیجتا ہے، آپ ﷺ عادی اور سرسری طور پر صرف زبان سے نہیں بلکہ روح اور قلب سے متوجہ ہو کر اس کے سلام کا جواب عنایت فرماتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر عمر بھر کے صلوٰۃ و سلام کا کچھ بھی اجر و ثواب نہ ملے صرف آپ ﷺ کا جواب مل جائے تو سب کچھ مل گیا۔ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ
Top