معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1358
عَنْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ، فَقَالَ: أَلاَ أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، فَأَهْدِهَا لِي، فَقَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ البَيْتِ، فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُمْ؟ قَالَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ " (رواه البخارى ومسلم)
درود شریف کے خاص کلمات
مشہور جلیل القدر تابعی عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میری ملاقات کعب بن عجرہ ؓ سے ہوئی (جو اصحاب بیعت رضوان میں سے ہیں) اُنہوں نے مجھ سے فرمایا میں تمہیں ایک خاص تحفہ پیش کروں (یعنی ایک بیش بہا حدیث سناؤں) جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، میں نے عرض کیا مجھے وہ تحفہ ضرور دیجئے! انہوں نے بتایا کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو ہم کو بتا دیا کہ ہم آپ ﷺ پر سلام کس طرح بھیجا کریں (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ نے ہم کو بتا دیا ہے کہ ہم تشہد میں "السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ" کہہ کر آپ ﷺ پر سلام بھیجا کریں) اب آپ ہمیں یہ بھی بتا دیجئے کہ ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کیسے بھیجا کریں، آپ ﷺ نے فرمایا یوں کہا کرو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اے اللہ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے نوازش اور عنایت و رحمت فرمائی حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کے گھر والوں پر، بےشک تو حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! خاص برکتیں نازل فرما حضرت حمدﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کے گھرانے والوں پر، تو حمد و ستائش کا سزاوار اور عظمت و بزرگی والا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا ہم بندوں کو حکم دیا اور بڑے مؤثر اور پیارے انداز میں حکم دیا، اور خود رسول اللہ ﷺ نے مختلف پیرایوں میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کے وہ برکات اور فضائل بیان فرمائے جو ناظرین کو مندرجہ سابق احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں۔ پھر صحابہ کرام کے دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺ نے درود و سلام کے خاص کلمات بھی تعلیم فرمائ۔ اپنے امکان کی حد تک کتبِ حدیث کی پوری چھان بین کے بعد اس سلسلہ کی مستند روایات جمع کر کے ذیل میں درج کی جا رہی ہیں۔ تشریح ..... حضرت کعب بن عجرہ نے عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کو یہ حدیث جس طرح اور جس تمہید کے ساتھ سنائی اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس حدیث کو اور اس درود شریف کو کتنا عظیم اور کیسا بیش بہا تحفہ سمجھتے تھے۔ اور طبری کی اسی حدیث کی روایت میں یہ بھی ہے کہ کعب بن عجرہ نے یہ حدیث عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے سنائی تھی۔ (1) اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اس کی کتنی عظمت تھی۔ اسی حدیث کی بیہقی کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ صلوٰۃ یعنی درود کے طریقہ کے بارے میں یہ سوال رسول اللہ ﷺ سے اس وقت کیا گیا جب سورہ احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی (2) إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اس آیت میں صلوٰۃ و سلام کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے بارے میں تفصیل سے پہلے لکھا جا چکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سوال کے جواب میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا ہم کو جو حکم دیا ہے اس کا کیا طریقہ ہے اور کس طرح ہم آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجا کریں؟ صلوٰۃ کے جو کلمات اس حدیث میں اور اس کے علاوہ بھی بہت سی دوسری حدیثوں میں تلقین فرمائے یعنی اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الخ ان سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ پر ہمارے صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے التجا اور استدعا کریں کہ وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجے اور برکتیں نازل فرمائے۔ یہ اس لئے کہ ہم خود چونکہ محتاج و مفلس اور تہی مایہ ہیں، ہرگز اس لائق نہیں ہیں کہ اپنے محسنِ اعظم اور اللہ کے نبی محترم ﷺ کی بارگاہ میں کچھ پیش کر سکیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں استدعا اور التجا کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ اور برکت بھیجے یعنی آپ ﷺ کی تشریف و تکریم آپ پر نوازش و عنایت، رحمت و رأفت، پیار دُلار میں اور مقبولیت کے درجات و مراتب میں اضافہ فرمائے اور آپ ﷺ کو اپنی خاص برکتوں سے نوازے، نیز آپ ﷺ کے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمائے۔ استدعاء "صلوٰۃ" کے بعد "برکت" مانگنے کی حکمت صلوٰۃ کے بارے میں پہلے بقدرِ ضرورت کلام کیا جا چکا ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ اس کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ تشریف و تکریم، مدح و ثنا، رحمت و رأفت، محبت و عطوفت، رفع مراتب، ارادہ خیر، اعطاء خیر، اور دعائے خیر سب ہی کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بندہ پر "برکت" ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کے لئے بھرپور نوازش و عنایت اور خیر و نعمت کا اور اس کے دوام اور اس میں برابر اضافہ و ترقی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہے۔ بہرحال برکت کسی ایسی چیز کا نام نہیں ہے جس کو "صلوٰۃ" کا وسیع مفہوم حاوی نہ ہو۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں رسول اللہ ﷺ کے لئے صلوٰۃ کی استدعا کرنے کے بعد آپ ﷺ کے واسطے برکت یا رحمت کی دعا اور التجا کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا اور سوال کے موقع پر یہی مستحسن ہے کہ مختلف الفاظ و عبارات میں بار بار عرض و معروض کی جائے، اس سے بندہ کی شدید محتاجی اور صدقِ طلب کا اظہار ہوتا ہے اور سائل اور منگتا کے لئے یہی مناسب ہے۔ اس لئے اس درود شریف میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کے لئے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ کی استدعا کے بعد برکت کی التجا بھی کی گئی ہے اور بعض دوسری روایات میں (جو عنقریب درج ہوں گی) صلوٰۃ اور برکت کے بعد ترحم کا بھی سوال کیا گیا ہے۔ دُرود شریف میں لفظ "آل" کا مطلب اس دُرود شریف میں "آل" کا لفظ چار دفعہ آیا ہے، ہم نے اس کا ترجمہ "گھرانے والوں کا کیا ہے۔ عربی زبان اور خاص کر قرآن حدیث کے استعمالات میں کسی شخص کی آل ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے ہوں، خواہ یہ تعلق نسب اور رشتہ کا ہو، جیسے اس کے بیوی بچے یا رفاقت اور عقیدت و محبت اور اتباع و اطاعت کا، جیسے کہ اس کے مشن کے خاص ساتھی اور محبین و متبعین (1) اس لئے نفس لغت کے لحاظ سے یہاں آل کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگلے ہی نمبر پر اسی مضمون کی حضرت ابو حمید ساعدی کی جو حدیث درج کی جا رہی ہے اس میں دُرود شریف کے جو الفاظ ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں "آل" سے "گھرانے والے" ہی مراد ہیں۔ یعنی آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور آپ ﷺ کی نسل و اولاد، اور جس طرح ان کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خصوصی قرابت و جزئیت اور زندگی میں شرکت کا خاص شرف حاصل ہے (جو دوسرے حضرات کو حاصل نہیں ہے اگرچہ وہ درجہ میں ان سے افضل ہوں) اسی طرح یہ بھی ان کا ایک مخصوص شرف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان پر بھی درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔ اور اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ ازواجِ مطہرات وغیرہ جو لفظ "آل" کے مصداق ہیں، امت میں سب سے افضل ہوں، عنداللہ افضلیت کا مدار ایمان اور ایمان والے اعمال اور ایمانی کیفیات پر ہے جس کا جامع عنوان تقویٰ ہے۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ اس کو بالکل یوں سمجھنا چاہئے کہ ہماری اس دنیا میں بھی جب کوئی مخلص محبّ اپنے کسی محبوب بزرگ کی خدمت میں کوئی خاص مرغوب تحفہ اور سوغات پیش کرتا ہے تو اس کے پیش نظر خود وہ بزرگ اور ان کے ذاتی تعلق کی بناء پر ان کے گھر والے ہوتے ہیں اور اس مخلص کی یہ خوشی ہوتی ہے کہ یہ تحفہ ان بزرگ کے ساتھ ان کے گھر والے یعنی اہل و عیال بھی استعمال کریں، کسی کے ساتھ تعلق و محبت کا دراصل یہ فطری تقاضا ہے۔ دُرود شریف بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک تحفہ اور سوغات ہے، اس میں آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ آپ کے خاص متعلقین یعنی اہل و عیال کو بھی شریک کرنا بلا شبہ آپ ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے، اور اس سے آپ ﷺ کے قلبِ مبارک کا بہت زیادہ خوش ہونا بھی ایک فطری بات ہے۔ اس کی بنیاد پر افضلیت اور مفضولیت کی کلامی بحث کرنا کوئی خوش ذوقی کی بات نہیں ہے۔ بہرحال اس عاجز کے نزدیک راجح یہی ہے کہ دُرود شریف میں آل محمدﷺ سے آپ کے گھر والے یعنی ازواجِ مطہرات اور ذریت مراد ہیں، اور اسی طرح سے آل ابراہیم علیہ السلام سے حضرت ابراہیمؑ کے گھر والے! قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ مطہرہ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے۔ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ بلاشبہ آلِ ابراہیمؑ وہی ہیں جن کو اس آیت میں اہل البیت فرمایا گیا ہے۔ دُرود شریف میں تشبیہ کی حقیقت اور نوعیت رسول اللہ ﷺ کے تلقین فرمائے ہوئے اس دُرود شریف میں اللہ تعالیٰ سے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر صلوٰۃ اور برکت نازل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا گیا ہے کہ ایسی صلوٰۃ اور برکت نازل فرما جیسی کہ تو نے حضرت ابراہیمؑ اور اُن کی آل پر نازل فرمائی۔ اس تشبیہ کے بارے میں ایک مشہور علمی اشکال ہے کہ تشبیہ میں مشبہ، مشبہ بہ کے مقابلہ میں کمتر ہوتا ہے اور مشبہ بہ اعلیٰ اور برتر ہوتا ہے۔ مثلاً ٹھنڈے پانی کو برف سے تشبیہ دی جاتی ہے تو پانی خواہ کتنا ہی ٹھنڈا ہو، ٹھنڈک میں بہرحال برف سے کمتر ہوتا ہے اور برف میں اس سے زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے۔ اس اُصول پر دُرود شریفکی مذکورہ بالا تشبیہ سے لازم آتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیمؑ پر نازل ہونے والی صلوٰۃ و برکات ان صلوٰۃ و برکات سے اعلیٰ اور افضل ہوں جن کی اس دُرود پاک میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل کے لئے استدعا اور التجا کی گئی ہے۔ شارحین حدیث نے اس اشکال کے بہت سے جوابات دئیے ہیں جو فتح الباری وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس عاجز کے نزدیک سب سے زیادہ تسلی بخش جواب یہ ہے کہ تشبیہ کبھی صرف نوعیت کی تعین کے لئے بھی ہوتی ہے مثلاً ایک شخص کسی خاص قسم کے کپڑے کا ایک پرانا ٹکڑا لے کر کپڑے کی بڑی دکان پر جاتا ہے کہ مجھے ایسا کپڑا چاہئے، حالانکہ جس ٹکڑے کو وہ نمونے کے طور پر دکھا رہا ہے اور جو مشبہ بہ ہے وہ ایک پرانا اور بےقیمت ٹکڑا ہے اور اسی قسم کا جو کپڑا وہ دکاندار سے چاہتا ہے وہ ظاہر ہے کہ نیا اور قیمتی ہو گا اور اس لحاظ سے نمونہ والے ٹکڑے سے بہتر ہو گا۔ پس دُرود شریف میں تشبیہ اسی قسم کی ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس خاص نوعیت کی صلوٰۃ و برکات سے سیدنا ابراہیمؑ و آل ابراہیمؑ کو نوازا گیا، اسی نوعیت کی صلوٰۃ و برکات سیدنا محمد ﷺ و آلِ محمد پر نازل فرمائی جائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام نبیوں بلکہ ساری مخلوق میں یہ امتیازات حاصل ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنا خلیل بنایا (وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا) ان کو امامتِ کبریٰ کے عظیم شرف سے مشرف اور سرفراز فرمایا (إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا) ان کو بیت اللہ کا بانی بنایا۔ ان کے بعد سے قیامت تک کے لئے نبوت و رسالت کا سلسلہ اُن ہی کی نسل اور ان ہی کے اخلاف میں منحصر کر دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سوا کسی پر بھی اللہ تعالیٰ کی یہ نوازشیں اور عنایتیں نہیں ہوئیں اور کسی کو بھی محبوبیت و مقبولیت کا یہ مقام عالی عطا نہیں ہوا۔ پس دُرود شریف میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا اور التجا کی جاتی ہے کہ اسی قسم کی اور اسی نوع کی عنایتیں اور نوازشیں اپنے حبیب حضرت محمدﷺ اور ان کی آل پر بھی فرما اور محبوبیت و مقبولیت کا ویسا ہی مقام ان کو بھی عطا فرما۔ الغرض یہ تشبیہ صرف نوعیت کی تعین اور وضاحت کے لئے جس میں بسا اوقات مشبہ، مشبہ بہ کے مقابلہ میں اعلیٰ و برتر ہوتا ہے اور اس کی مثال وہی ہے جو اوپر کپڑے کی دی گئی ہے۔ دُرود شریف کا اول و آخر اللَّهُمَّ ......... إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ دُرود شریف کو اللَّهُمَّ سے شروع کر کے اللہ تعالیٰ کے دو مبارک اور پاک ناموں حمید و مجید پر ختم کیا گیا ہے۔ بعض جلیل القدر ائمہ سلف سے نقل کیا گیا ہے کہ اللَّهُمَّ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء حسنیٰ کے قائم مقام ہے۔ اور اس کے ذریعہ دعا کرنا ایسا ہے جیسا کہ تمام اسماء حسنیٰ کے ذریعہ دعا کی جائے۔ "جلاء الافہام" میں اس پر بڑی نفیس فاضلانہ بحث کی ہے جو اہلِ علم کے لئے قابلِ دید ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ معنی اللَّهُمَّ کی میم مشدد سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کو فلسفہ لغت سے ثابت کیا ہے۔ پھر اس دعوے کی تائید میں چند ائمہ سلف کے اقوال بھی نقل کئے ہیں (1) اور حمید و مجید اللہ تعالیٰ کے یہ دو مبارک نام اس کی تمام صفاتِ جلال و جمال کے آئینہ دار ہیں حمید وہ ہے جس کی ذات میں سارے وہ محاسن و کمالات ہوں جن کی بناء پر وہ ہر ایک کی حمد و ستائش کا مستحق و سزاوار ہو۔ اور مجید وہ ہے جس کو ذاتی جلال و جبروت اور عظمت کبریائی بدرجہ کمال حاصل ہو۔ اس بناء پر إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ کا مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ تو تمام صفاتِ جمال و کمال اور شانِ جلال کا جامع ہے اس لئے سیدنا محمدﷺ اور آلِ محمد پر صلوٰۃ اور برکت بھیجنے کی تجھ ہی سے استدعا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے گھر والوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت و برکت کا جہاں ذکر کیا گیا ہو وہاں بھی اللہ کے ان دونوں ناموں کی اسی خصوصیت اور امتیاز کی وجہ سے انہی کو بالکل اسی طرح خاتمہ کلام بنایا گیا ہے۔ سورہ ھود میں فرشتوں کی زبانی فرمایا گیا ہے رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ الغرض اللَّهُمَّ سے درود شریف کا آغاز اور إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ پر اس کا اختتام اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے اور ان دونوں کلموں کی اس معنویت کا لحاظ کرنے سے درود شریف کا کیف بےحد بڑھ جاتا ہے۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ اس دُرود شریف کے الفاظ کی روایتی حیثیت حضرت کعب بن عجرہ کی روایت سے دُرود شریف کے جو الفاظ اوپر نقل کئے گئے ہیں وہ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کی کتاب الانبیاء میں روایت کئے ہیں (جلد اول ص ۴۴۷) اس کے علاوہ کم سے کم دو جگہ اور یہ حدیث امام بخاریؒ نے روایت کی ہے۔ ایک سورہ احزاب کی تفسیر میں (ص ۷۰۸، ج ۲)اور دوسرے کتاب الدعوات میں ص ۹۴۱، ج: ۲) ان دونوں جگہوں پر دُرود شریف میں "كَمَا صَلَّيْتَ" اور "كَمَا بَارَكْتَ" کے بعد "عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ" کی جگہ صرف "عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ" روایت کیا ہے اور صحیح مسلم کی روایت میں بھی اسی طرح ہے لیکن حافظ ابنِ حجرؒ نے اس حدیث کی صحیحین اور غیر صحیحین کی تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے فتح الباری میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کعب بن عجرہ کی روایت میں دُرود شریف کے پورے الفاظ یہی ہیں جو یہاں نقل کئے گئے ہیں اور جن روایات میں صرف "عَلَى إِبْرَاهِيمَ" یا "عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ" وارد ہوا ہے وہاں بعض راویوں کے حافظہ کے فرق سے ایسا ہو گیا ہے۔ (1) (فتح الباری جزء ۲۶، ص ۵۱) حضرت کعب بن عجرہ کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرام سے قریب قریب یہی مضمون اور درود شریف کے قریباً یہی الفاظ کتبِ حدیث میں روایت کئے گئے ہیں۔ وہ تمام روایات آگے پیش کی جا رہی ہیں۔
Top