معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1359
عَنْ أَبِيْ حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ قَالَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ " (رواه البخارى)
درود شریف کے خاص کلمات
ضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ حضرت! ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کس طرح پڑھا کریں؟ آپ صﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا کرو۔ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ" اے اللہ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدﷺ پر اور آپ کی (پاک) بیبیوں اور آپ ﷺ کی نسل پر جیسے کہ آپ نے نوازش اور عنایت و رحمت فرمائی آلِ ابراہیم پر، اور خاص برکت نازل فرما حضرت محمدﷺ پر اور آپ ﷺکی (پاک) بیبیوں اور آپ ﷺ کی نسل پر جیسے کہ آپ نے برکتیں نازل فرمائی آلِ ابراہیم پر، اے اللہ تو ساری حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے ہی لئے ساری عظمت و بڑائی ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں دُرود شریف کے جو الفاظ تلقین فرمائے گئے ہیں وہ کعب بن عجرہؓ والی پہلی حدیث سے کچھ مختلف ہیں۔ پہلی حدیث میں "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ" اور "اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ" فرمایا گیا تھا، اور اس حدیث میں دونوں جگہ "وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ" کے بجائے "وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ" فرمایا گیا ہے، اسی بناء پر اس عاجز نے پہلی حدیث کی تشریح میں ان حضرات کے قول کو راجح قرار دیا تھا جنہوں نے کہا ہے کہ دُرود شریف میں آلِ محمد سے مراد ازواجِ مطہرات اور آپ ﷺ کی ذریت طیبہ ہے۔ ایک دوسرا خفیف لفظی فرق یہ بھی ہے کہ پہلی حدیث میں "كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ" اور "كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ" فرمایا گیا تھا اور اس حدیث میں دونوں جگہ صرف "عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ" ہے۔ اور حضرت ابو حمید ساعدی کی اس روایت کے علاوہ دوسرے اکثر صحابہ کی حدیثوں میں بھی جو آگے درج ہوں گی، اسی طرح صرف "عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ" وارد ہوا ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا یہ صرف لفظی فرق ہے۔ اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ عربی محاورات میں جب کسی کا نام لے کر اس کی آل کا ذکر کیا جائے اور خود اس کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ بھی اس میں شامل ہوتا ہے مثلاً قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے " إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ" (اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ساری قوموں میں برگزیدہ کیا آدمؑ کو اور نوحؑ کو اور آل ابراہیم) کو ظاہر ہے کہ یایہاں آلِ ابراہیم میں کود حضرت ابراہیم بھی شامل ہیں۔ اسی طرح "وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ" اور "أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ" میں خود فرعون بھی شامل ہے۔ بہرحال ان دونوں حدیثوں میں دُرود شریف کے جو کلمات وارد ہوئے ہیں ان میں خفیف سا فرق صرف الفاظ میں ہے۔ اسی لئے علماء و فقہا نے تصریح کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دُرود نماز میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام کی روایتوں سے آئندہ درج ہونے والی حدیثوں میں دُرود شریف کے جو کلمات آ رہے ہیں جن میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی ہے، وہ سب بھی نماز میں پڑھے جا سکتے ہیں۔
Top