معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1360
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ: أَمَرَنَا اللهُ تَعَالَى أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُولُوا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ» (رواه مسلم)
درود شریف کے خاص کلمات
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ہم کچھ لوگ سعد بن عبادہ کی نشست گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے، وہیں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو (حاضرین مجلس میں سے) بشیر بن سعد نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا حکم دیا ہے (ہمیں بتائیے کہ) ہم کس طرح آپ ﷺ پر صلوٰۃ بھیجا کریں؟ حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کچھ دیر تک خاموش رہے اور آپ ﷺ نے بشیر بن سعد کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا (جس سے ہمیں یہ شبہ ہو کہ شاید یہ سوال آپ کو اچھا نہیں لگا) یہاں تک کہ ہمارے دل میں آیا کہ کاش یہ سوال نہ کیا گیا ہوتا پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد (اس سوال کا جواب دیتے ہوئے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یوں کہا کرو: اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ اے اللہ! اپنی خاص نوازش اور عنایت و رحمت فرما حضرت محمدپر اور ان کے گھرانے والوں پر جس طرح تو نے نوازش و عنایت اور رحمت فرمائی حضرت ابراہیم کے گھرانے پر، اور اپنی خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمداور ان کے گھرانے پر، جسطرح تونے برکتیں نازل فرمائیںحضرت ابراہیم کے گھرانے پر، ساری حمد و ستائش کا سزاوار ہے اور تیرے ہی لئے ساری عظمت و بزرگی ہے اور سلام اس طرح جس طرح کہ تمہیں معلوم ہو چکا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابو مسعود انصاری کی اس حدیث کی طبری کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب بشیر بن سعد نے آپ ﷺ سے سوال کی اکہ ہم آپ ﷺ پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ تو آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ پر وحی آئی (فَسَكَتَ حَتَّى جَاءَهُ الْوَحْىُ) اس کے بعد آپ ﷺ نے مندرجہ بالا دُرود تلقین فرمایا۔ اس اضافہ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ کی خاموشی وحی کے انتظار میں تھی اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دُرود شریف کے کلمات آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم فرمائے گئے تھے۔ اور مزید یہ بھی معلوم ہو گیا کہ دُرود کے بارے میں آپ ﷺ سے پہلی دفعہ سعد بن عبادہ کی مجلس ہی میں کیا گیا تھا جس کے جواب میں آپ ﷺ کو وحی کا انتظار کرنا پڑا۔ دوسرے بعض صحابہ (کعب بن عجرہ اور ابو حمید ساعدی وغیرہ) کی روایات میں جو اسی طرح کے سوال کا ذکر ہے وہ یا تو اسی مجلس کے واقعہ کا بیان ہے یا مختلف حضرات نے مختلف موقعوں پر رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تھا اور آپ ﷺ نے جواب میں ان کو دُرود شریف کے وہ کلمات تلقین فرمائے جو ان کی روایات میں وارد ہیں۔ اکثر احادیث کے سیاق اور الفاظ و کلمات کے فرق سے اسی دوسرے احتمال کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابو سعید انصاری کی اس حدیث کی امام احمد اور ابن خزیمہ اور حاکم وغیرہ کی روایات میں ایک اضافہ یہ بھی ہے کہ بشیر بن سعد نے دُرود بھیجنے کے بارے میں سوال کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ اِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا عَلَيْكَ فِىْ صَلَاتِنَا جب ہم نماز میں آپ ﷺ پر درود بھیجیں تو کس طرح بھیجا کریں؟ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سوال خاص طور سے نماز میں دُرود پڑھنے کے بارے میں کیا گیا تھا اور یہ دُرود ابراہیمی رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت سے نماز میں پڑھنے کے لئے تلقین فرمایا۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ کی اس روایت میں بھی ابو حمید ساعدی کی حدیث کی طرح "كَمَا صَلَّيْتَ" اور "كَمَا بَارَكْتَ" کے بعد "عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ" روایت کیا گیا ہے اور آخر میں "إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" سے پہلے "فِى الْعَالَمِيْنَ" کا اضافہ بھی ہے۔
Top