مؤطا امام مالک - کتاب بیع کے بیان میں - حدیث نمبر 1239
عَنْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ فَنِيَ عَلَفُ دَابَّتِهِ فَقَالَ لِغُلَامِهِ خُذْ مِنْ حِنْطَةِ أَهْلِکَ طَعَامًا فَابْتَعْ بِهَا شَعِيرًا وَلَا تَأْخُذْ إِلَّا مِثْلَهُ عَنْ ابْنِ مُعَيْقِيبٍ الدَّوْسِيِّ مِثْلُ ذَلِكَ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنْ لَا تُبَاعَ الْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ وَلَا التَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَلَا الْحِنْطَةُ بِالتَّمْرِ وَلَا التَّمْرُ بِالزَّبِيبِ وَلَا الْحِنْطَةُ بِالزَّبِيبِ وَلَا شَيْءٌ مِنْ الطَّعَامِ كُلِّهِ إِلَّا يَدًا بِيَدٍ فَإِنْ دَخَلَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ الْأَجَلُ لَمْ يَصْلُحْ وَكَانَ حَرَامًا وَلَا شَيْءَ مِنْ الْأُدْمِ كُلِّهَا إِلَّا يَدًا بِيَدٍ قَالَ مَالِك وَلَا يُبَاعُ شَيْءٌ مِنْ الطَّعَامِ وَالْأُدْمِ إِذَا كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ فَلَا يُبَاعُ مُدُّ حِنْطَةٍ بِمُدَّيْ حِنْطَةٍ وَلَا مُدُّ تَمْرٍ بِمُدَّيْ تَمْرٍ وَلَا مُدُّ زَبِيبٍ بِمُدَّيْ زَبِيبٍ وَلَا مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنْ الْحُبُوبِ وَالْأُدْمِ كُلِّهَا إِذَا كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ وَإِنْ كَانَ يَدًا بِيَدٍ إِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الْوَرِقِ بِالْوَرِقِ وَالذَّهَبِ بِالذَّهَبِ لَا يَحِلُّ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ الْفَضْلُ وَلَا يَحِلُّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ قَالَ مَالِك وَإِذَا اخْتَلَفَ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ مِمَّا يُؤْكَلُ أَوْ يُشْرَبُ فَبَانَ اخْتِلَافُهُ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ وَلَا بَأْسَ أَنْ يُؤْخَذَ صَاعٌ مِنْ تَمْرٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ وَصَاعٌ مِنْ تَمْرٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ زَبِيبٍ وَصَاعٌ مِنْ حِنْطَةٍ بِصَاعَيْنِ مِنْ سَمْنٍ فَإِذَا كَانَ الصِّنْفَانِ مِنْ هَذَا مُخْتَلِفَيْنِ فَلَا بَأْسَ بِاثْنَيْنِ مِنْهُ بِوَاحِدٍ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ يَدًا بِيَدٍ فَإِنْ دَخَلَ فِي ذَلِكَ الْأَجَلُ فَلَا يَحِلُّ قَالَ مَالِك وَلَا تَحِلُّ صُبْرَةُ الْحِنْطَةِ بِصُبْرَةِ الْحِنْطَةِ وَلَا بَأْسَ بِصُبْرَةِ الْحِنْطَةِ بِصُبْرَةِ التَّمْرِ يَدًا بِيَدٍ وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى الْحِنْطَةُ بِالتَّمْرِ جِزَافًا قَالَ مَالِك وَكُلُّ مَا اخْتَلَفَ مِنْ الطَّعَامِ وَالْأُدْمِ فَبَانَ اخْتِلَافُهُ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ جِزَافًا يَدًا بِيَدٍ فَإِنْ دَخَلَهُ الْأَجَلُ فَلَا خَيْرَ فِيهِ وَإِنَّمَا اشْتِرَاءُ ذَلِكَ جِزَافًا كَاشْتِرَاءِ بَعْضِ ذَلِكَ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ جِزَافًا قَالَ مَالِك وَذَلِكَ أَنَّكَ تَشْتَرِي الْحِنْطَةَ بِالْوَرِقِ جِزَافًا وَالتَّمْرَ بِالذَّهَبِ جِزَافًا فَهَذَا حَلَالٌ لَا بَأْسَ بِهِ قَالَ مَالِك وَمَنْ صَبَّرَ صُبْرَةَ طَعَامٍ وَقَدْ عَلِمَ كَيْلَهَا ثُمَّ بَاعَهَا جِزَافًا وَكَتَمَ عَلَى الْمُشْتَرِيَ كَيْلَهَا فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ فَإِنْ أَحَبَّ الْمُشْتَرِي أَنْ يَرُدَّ ذَلِكَ الطَّعَامَ عَلَى الْبَائِعِ رَدَّهُ بِمَا كَتَمَهُ كَيْلَهُ وَغَرَّهُ وَكَذَلِكَ كُلُّ مَا عَلِمَ الْبَائِعُ كَيْلَهُ وَعَدَدَهُ مِنْ الطَّعَامِ وَغَيْرِهِ ثُمَّ بَاعَهُ جِزَافًا وَلَمْ يَعْلَمْ الْمُشْتَرِي ذَلِكَ فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ إِنْ أَحَبَّ أَنْ يَرُدَّ ذَلِكَ عَلَى الْبَائِعِ رَدَّهُ وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْ ذَلِكَ قَالَ مَالِك وَلَا خَيْرَ فِي الْخُبْزِ قُرْصٍ بِقُرْصَيْنِ وَلَا عَظِيمٍ بِصَغِيرٍ إِذَا كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ أَكْبَرَ مِنْ بَعْضٍ فَأَمَّا إِذَا كَانَ يُتَحَرَّى أَنْ يَكُونَ مِثْلًا بِمِثْلٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يُوزَنْ قَالَ مَالِك لَا يَصْلُحُ مُدُّ زُبْدٍ وَمُدُّ لَبَنٍ بِمُدَّيْ زُبْدٍ وَهُوَ مِثْلُ الَّذِي وَصَفْنَا مِنْ التَّمْرِ الَّذِي يُبَاعُ صَاعَيْنِ مِنْ كَبِيسٍ وَصَاعًا مِنْ حَشَفٍ بِثَلَاثَةِ أَصْوُعٍ مِنْ عَجْوَةٍ حِينَ قَالَ لِصَاحِبِهِ إِنَّ صَاعَيْنِ مِنْ كَبِيسٍ بِثَلَاثَةِ أَصْوُعٍ مِنْ الْعَجْوَةِ لَا يَصْلُحُ فَفَعَلَ ذَلِكَ لِيُجِيزَ بَيْعَهُ وَإِنَّمَا جَعَلَ صَاحِبُ اللَّبَنِ اللَّبَنَ مَعَ زُبْدِهِ لِيَأْخُذَ فَضْلَ زُبْدِهِ عَلَى زُبْدِ صَاحِبِهِ حِينَ أَدْخَلَ مَعَهُ اللَّبَنَ قَالَ مَالِك وَالدَّقِيقُ بِالْحِنْطَةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا بَأْسَ بِهِ وَذَلِكَ لِأَنَّهُ أَخْلَصَ الدَّقِيقَ فَبَاعَهُ بِالْحِنْطَةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَلَوْ جَعَلَ نِصْفَ الْمُدِّ مِنْ دَقِيقٍ وَنِصْفَهُ مِنْ حِنْطَةٍ فَبَاعَ ذَلِكَ بِمُدٍّ مِنْ حِنْطَةٍ كَانَ ذَلِكَ مِثْلَ الَّذِي وَصَفْنَا لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ فَضْلَ حِنْطَتِهِ الْجَيِّدَةِ حَتَّى جَعَلَ مَعَهَا الدَّقِيقَ فَهَذَا لَا يَصْلُحُ
اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے۔
عبدالرحمن بن اسود کے جانور کا چارہ تمام ہوگیا انہوں نے اپنے غلام سے کہا گھر سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جو تلوا لا۔ ابن معیقب دوسری سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ نہ بیچا جائے گا گیہوں بدلے میں گیہوں کے اور کھجور بدلے کھجور کے اور گیہوں بدلے میں کھجور کے اور کھجور بدلے میں انگور کے مگر نقدا نقد کسی طرف میعاد نہ ہو اگر میعاد ہوگی تو حرام ہوجائے گا اسی طرح جتنی چیزیں روٹی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ بدلے تو نقدا نقد لے۔ کہا مالک نے جتنی کھانے کی چیزیں ہیں یا روٹی کے ساتھ لگانے کی جب جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں۔ مثلا ایک مد گیہوں کو دو مد گیہوں کے بدلے میں یا ایک مد کھجور کو دو مد کھجور کے بدلے میں یا ایک مد انگور کو دو مد انگور کے بدلے میں نہ بیچیں گے اسی طرح جو چیزیں ان کے مشابہ ہیں کھانے کی یا روٹی کے ساتھ لگانے کی جب ان کی جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں اگرچہ نقدا نقد ہو جیسے کوئی چاندی کو چاندی کے بدلے میں اور سونے کو سونے کے بدلے میں اور بیچے تو کمی بیشی درست نہیں بلکہ ان سب چیزوں میں ضروری ہے کہ برابر ہوں۔ اور نقدا نقد ہوں۔ کہا مالک نے جب جنس میں اختلاف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد ہونا چاہیے جیسے کوئی ایک صاع کھجور کو دو صاع گیہوں کے بدلے میں یا ایک صاع کھجور کو دو صاع انگور کے بدلے یا ایک صاع گیہوں کے دو صاع گھی کے بدلے میں خریدے تو کچھ قباحت نہیں جب نقدا نقد ہوں میعاد نہ ہو اگر میعاد ہوگی تو درست نہیں۔ کہا مالک نے یہ درست نہیں کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر دوسرا گیہوں کا بورا اس کے بدلے میں لے یہ درست ہے کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر کھجور کا بورا اس کے بدلے میں لے نقدا نقد کیونکہ کھجور کو گیہوں کے بدلے میں ڈھیر لگا کر اٹکل سے بیچنا درست ہے۔ کہا مالک نے جتنی چیزیں کھانے کی یا روٹی کے ساتھ لگانے کی ہیں جب ان میں جنس مختلف ہو تو ایک دوسرے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر بیچنا درست ہے جب نقدا نقد ہو اگر اس میں میعاد ہو تو درست نہیں جیسے کوئی چاندی سونے کے بدلے میں ان چیزوں کا ڈھیر لگا کر بیچے تو درست ہے۔ کہا مالک نے اگر ایک شخص نے گیہوں تول کر ایک ڈھیر بنایا اور وزن چھپا کر کسی کے ہاتھ یبچا تو یہ درست نہیں۔ اگر مشتری (خریدنے والا) یہ چاہے کہ وہ گیہوں بائع (بچنے والا) کو واپس کر دے اس وجہ سے کہ بائع (بچنے والا) نے دیا ہو دانستہ وزن کو اس سے چھپایا اور دھوکا دیا تو ہوسکتا ہے اسی طرح جو چیز بائع (بچنے والا) وزن چھپا کر بیچے تو مشتری (خریدنے والا) کا اس کے پھیر دینے کا اختیار ہے اور ہمیشہ اہل علم اس بیع کو منع کرتے رہے۔ کہا مالک نے ایک روٹی کو دو روٹیوں سے بدلنا یا بڑی روٹی کو چھوٹی روٹی سے بدلنا اچھا نہیں البتہ اگر روٹی کو دوسری روٹی کے برابر سمجھے تو بدلنا درست ہے اگرچہ وزن نہ کرے۔ کہا مالک نے ایک مدزبد اور ایک مدلبن کو دو مدزبد کے بدلے میں لینا درست نہیں کیونکہ اس نے اپنے زبد کی عمدگی لبن کے شریک کرکے برابر کرلی اگر علیحدہ لبن کو بیچتا تو کبھی ایک صاع لبن کے بدلے میں ایک صاع زبد نہ آتی۔ اس قسم کا مسئل اوپر بیان ہوچکا۔ سعید بن مسیب سے محمد بن عبداللہ بن مریم نے پوچھا میں غلہ خرید کرتا ہوں جار کا تو کبھی میں ایک دینار اور نصف درہم کو خرید کرتا ہوں کیا نصف درہم کے بدلے میں اناج دے دوں سعید نے کہا نہیں بلکہ ایک درہم دے دے اور جس قدر باقی رہے اس کے بدلے میں بھی اناج لے لے۔
Yahya related to me from Malik from Nafi that Sulayman ibn Yasar told him that one time the fodder of the animals of Abd ar-Rahman ibn al-Aswad ibn Abd Yaghuth was finished so he said to his slave, "Take some of your familys wheat as food and buy with it barley, and take only a like quantity. "
Top