مؤطا امام مالک - کتاب بیع کے بیان میں - حدیث نمبر 1255
بَاب بَيْعِ النُّحَاسِ وَالْحَدِيدِ وَمَا أَشْبَهَهُمَا مِمَّا يُوزَنُ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَا كَانَ مِمَّا يُوزَنُ مِنْ غَيْرِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مِنْ النُّحَاسِ وَالشَّبَهِ وَالرَّصَاصِ وَالْآنُكِ وَالْحَدِيدِ وَالْقَضْبِ وَالتِّينِ وَالْكُرْسُفِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِمَّا يُوزَنُ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤْخَذَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ وَلَا بَأْسَ أَنْ يُؤْخَذَ رِطْلُ حَدِيدٍ بِرِطْلَيْ حَدِيدٍ وَرِطْلُ صُفْرٍ بِرِطْلَيْ صُفْرٍ قَالَ مَالِك وَلَا خَيْرَ فِيهِ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ فَإِذَا اخْتَلَفَ الصِّنْفَانِ مِنْ ذَلِكَ فَبَانَ اخْتِلَافُهُمَا فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ فَإِنْ كَانَ الصِّنْفُ مِنْهُ يُشْبِهُ الصِّنْفَ الْآخَرَ وَإِنْ اخْتَلَفَا فِي الْاسْمِ مِثْلُ الرَّصَاصِ وَالْآنُكِ وَالشَّبَهِ وَالصُّفْرِ فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ قَالَ مَالِك وَمَا اشْتَرَيْتَ مِنْ هَذِهِ الْأَصْنَافِ كُلِّهَا فَلَا بَأْسَ أَنْ تَبِيعَهُ قَبْلَ أَنْ تَقْبِضَهُ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ إِذَا قَبَضْتَ ثَمَنَهُ إِذَا كُنْتَ اشْتَرَيْتَهُ كَيْلًا أَوْ وَزْنًا فَإِنْ اشْتَرَيْتَهُ جِزَافًا فَبِعْهُ مِنْ غَيْرِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ بِنَقْدٍ أَوْ إِلَى أَجَلٍ وَذَلِكَ أَنَّ ضَمَانَهُ مِنْكَ إِذَا اشْتَرَيْتَهُ جِزَافًا وَلَا يَكُونُ ضَمَانُهُ مِنْكَ إِذَا اشْتَرَيْتَهُ وَزْنًا حَتَّى تَزِنَهُ وَتَسْتَوْفِيَهُ وَهَذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي هَذِهِ الْأَشْيَاءِ كُلِّهَا وَهُوَ الَّذِي لَمْ يَزَلْ عَلَيْهِ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَنَا قَالَ مَالِك الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ مِمَّا لَا يُؤْكَلُ وَلَا يُشْرَبُ مِثْلُ الْعُصْفُرِ وَالنَّوَى وَالْخَبَطِ وَالْكَتَمِ وَمَا يُشْبِهُ ذَلِكَ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤْخَذَ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ فَإِنْ اخْتَلَفَ الصِّنْفَانِ فَبَانَ اخْتِلَافُهُمَا فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُمَا اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ وَمَا اشْتُرِيَ مِنْ هَذِهِ الْأَصْنَافِ كُلِّهَا فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُبَاعَ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى إِذَا قَبَضَ ثَمَنَهُ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْهُ قَالَ مَالِك وَكُلُّ شَيْءٍ يَنْتَفِعُ بِهِ النَّاسُ مِنْ الْأَصْنَافِ كُلِّهَا وَإِنْ كَانَتْ الْحَصْبَاءَ وَالْقَصَّةَ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِمِثْلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ فَهُوَ رِبًا وَوَاحِدٌ مِنْهُمَا بِمِثْلِهِ وَزِيَادَةُ شَيْءٍ مِنْ الْأَشْيَاءِ إِلَى أَجَلٍ فَهُوَ رِبًا
تانبے اور لوہے اور جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو چیزیں تل کر بکتی ہیں سوائے چاندی اور سونے کے جیسے تانبا اور پیتل اور رانگ اور سیسہ اور لوہا اور پتے اور گھاس اور روئی وغیرہ ان میں کمی بیشی درست ہے جب کہ نقدا نقد ہو مثلا ایک رطل لوہے کہ دو رطل لوہے کے بدلے میں یا ایک رطل پیتل کو دو رطل پیتل کے بدلے میں لینا درست ہے مگر جب جنس ایک ہو تو وعدے پر لینا درست نہیں۔ اگر جنس مختلف ہو اس طرح کہ کھلم کھلا فرق ہو (جیسے پیتل بدلے میں لوہے کے) تو وعدے پر لینا بھی درست ہے۔ اگر کھلم کھلا فرق نہ ہو صرف نام کا فرق ہو جیسے قلعی اور سیسہ اور پیتل اور کانسی تو میعاد پر لینا مکروہ ہے۔ کہا مالک نے ان چیزوں کو قبضے سے پہلے بیچنا درست ہے سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ نقد داموں پر جب ناپ تول کرلیا ضمان میں آجاتی ہے اور ناپ تول کر خریدنے میں جب تک مشتری (خریدنے والا) اس کو پھر ناپ تول نہ لے اور قبضہ نہ کرلے ضمان میں نہیں آتی۔ یہ حکم ان چیزوں کا میں نے اچھا نسا اور ہمارے نزدیک لوگوں کا عمل اسی پر رہا۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے کہ جو چیزیں کھانے اور پینے کی نہیں ہیں اور ناپ تول پر بکتی ہیں جیسے کسم اور گٹھلیاں یا پتے وغیرہ ان میں کمی بیشی درست ہے اگرچہ جنس ایک ہو مگر ادھار درست نہیں اگر جنس مختلف ہو تو ادھار بھی درست ہے اور ان چیزوں کو قبل قبضے کے بھی بیچنا درست ہے۔ سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ جب قیمت نقد لے لے۔ کہا مالک نے جتنی چیزیں ایسی ہیں جو کام میں آتی ہیں جیسے ریتی اور چونا اگر اپنی جنس کے بدلے میں بیچی جائیں میعاد پر برابر برابر ہوں یا کم وبیش ناجائز ہیں اگر نقد بیچی جائیں تو درست ہے اگرچہ کم وبیش ہوں۔
Malik said, "If someone advances gold or silver for described animals or goods which are to be delivered before a named date, and the date arrives, or it is before or after the date, there is no harm in the buyer selling those goods to the seller, for other goods, to be taken immediately and not delayed, no matter how extensive the amount of those goods is, except in the case of food because it is not halal to sell it before he has full possession of it. The buyer can sell those goods to some one other than the person from whom he purchased them for gold or silver or any goods. He takes possession of it and does not defer it because if he defers it, that is ugly and there enters into the transaction what is disapproved of: delay for delay. Delay for delay is to sell a debt against one man for a debt against another man." Malik said, "If someone advances for goods to be delivered after a time, and those goods are neither something to be eaten nor dru
Top