مؤطا امام مالک - کتاب بیع کے بیان میں - حدیث نمبر 1257
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ قَالَ مَالِك وَمِنْ الْغَرَرِ وَالْمُخَاطَرَةِ أَنْ يَعْمِدَ الرَّجُلُ قَدْ ضَلَّتْ دَابَّتُهُ أَوْ أَبَقَ غُلَامُهُ وَثَمَنُ الشَّيْءِ مِنْ ذَلِكَ خَمْسُونَ دِينَارًا فَيَقُولُ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُ مِنْكَ بِعِشْرِينَ دِينَارًا فَإِنْ وَجَدَهُ الْمُبْتَاعُ ذَهَبَ مِنْ الْبَائِعِ ثَلَاثُونَ دِينَارًا وَإِنْ لَمْ يَجِدْهُ ذَهَبَ الْبَائِعُ مِنْ الْمُبْتَاعِ بِعِشْرِينَ دِينَارًا قَالَ مَالِك وَفِي ذَلِكَ عَيْبٌ آخَرُ إِنَّ تِلْكَ الضَّالَّةَ إِنْ وُجِدَتْ لَمْ يُدْرَ أَزَادَتْ أَمْ نَقَصَتْ أَمْ مَا حَدَثَ بِهَا مِنْ الْعُيُوبِ فَهَذَا أَعْظَمُ الْمُخَاطَرَةِ قَالَ مَالِك وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ مِنْ الْمُخَاطَرَةِ وَالْغَرَرِ اشْتِرَاءَ مَا فِي بُطُونِ الْإِنَاثِ مِنْ النِّسَاءِ وَالدَّوَابِّ لِأَنَّهُ لَا يُدْرَى أَيَخْرُجُ أَمْ لَا يَخْرُجُ فَإِنْ خَرَجَ لَمْ يُدْرَ أَيَكُونُ حَسَنًا أَمْ قَبِيحًا أَمْ تَامًّا أَمْ نَاقِصًا أَمْ ذَكَرًا أَمْ أُنْثَى وَذَلِكَ كُلُّهُ يَتَفَاضَلُ إِنْ كَانَ عَلَى كَذَا فَقِيمَتُهُ كَذَا وَإِنْ كَانَ عَلَى كَذَا فَقِيمَتُهُ كَذَا قَالَ مَالِك وَلَا يَنْبَغِي بَيْعُ الْإِنَاثِ وَاسْتِثْنَاءُ مَا فِي بُطُونِهَا وَذَلِكَ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ ثَمَنُ شَاتِي الْغَزِيرَةِ ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ فَهِيَ لَكَ بِدِينَارَيْنِ وَلِي مَا فِي بَطْنِهَا فَهَذَا مَكْرُوهٌ لِأَنَّهُ غَرَرٌ وَمُخَاطَرَةٌ قَالَ مَالِك وَلَا يَحِلُّ بَيْعُ الزَّيْتُونِ بِالزَّيْتِ وَلَا الْجُلْجُلَانِ بِدُهْنِ الْجُلْجُلَانِ وَلَا الزُّبْدِ بِالسَّمْنِ لِأَنَّ الْمُزَابَنَةَ تَدْخُلُهُ وَلِأَنَّ الَّذِي يَشْتَرِي الْحَبَّ وَمَا أَشْبَهَهُ بِشَيْءٍ مُسَمًّى مِمَّا يَخْرُجُ مِنْهُ لَا يَدْرِي أَيَخْرُجُ مِنْهُ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ فَهَذَا غَرَرٌ وَمُخَاطَرَةٌ قَالَ مَالِك وَمِنْ ذَلِكَ أَيْضًا اشْتِرَاءُ حَبِّ الْبَانِ بِالسَّلِيخَةِ فَذَلِكَ غَرَرٌ لِأَنَّ الَّذِي يَخْرُجُ مِنْ حَبِّ الْبَانِ هُوَ السَّلِيخَةُ وَلَا بَأْسَ بِحَبِّ الْبَانِ بِالْبَانِ الْمُطَيَّبِ لِأَنَّ الْبَانَ الْمُطَيَّبَ قَدْ طُيِّبَ وَنُشَّ وَتَحَوَّلَ عَنْ حَالِ السَّلِيخَةِ قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ بَاعَ سِلْعَةً مِنْ رَجُلٍ عَلَى أَنَّهُ لَا نُقْصَانَ عَلَى الْمُبْتَاعِ إِنَّ ذَلِكَ بَيْعٌ غَيْرُ جَائِزٍ وَهُوَ مِنْ الْمُخَاطَرَةِ وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنَّهُ كَأَنَّهُ اسْتَأْجَرَهُ بِرِبْحٍ إِنْ كَانَ فِي تِلْكَ السِّلْعَةِ وَإِنْ بَاعَ بِرَأْسِ الْمَالِ أَوْ بِنُقْصَانٍ فَلَا شَيْءَ لَهُ وَذَهَبَ عَنَاؤُهُ بَاطِلًا فَهَذَا لَا يَصْلُحُ وَلِلْمُبْتَاعِ فِي هَذَا أُجْرَةٌ بِمِقْدَارِ مَا عَالَجَ مِنْ ذَلِكَ وَمَا كَانَ فِي تِلْكَ السِّلْعَةِ مِنْ نُقْصَانٍ أَوْ رِبْحٍ فَهُوَ لِلْبَائِعِ وَعَلَيْهِ وَإِنَّمَا يَكُونُ ذَلِكَ إِذَا فَاتَتْ السِّلْعَةُ وَبِيعَتْ فَإِنْ لَمْ تَفُتْ فُسِخَ الْبَيْعُ بَيْنَهُمَا قَالَ مَالِك فَأَمَّا أَنْ يَبِيعَ رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ سِلْعَةً يَبُتُّ بَيْعَهَا ثُمَّ يَنْدَمُ الْمُشْتَرِي فَيَقُولُ لِلْبَائِعِ ضَعْ عَنِّي فَيَأْبَى الْبَائِعُ وَيَقُولُ بِعْ فَلَا نُقْصَانَ عَلَيْكَ فَهَذَا لَا بَأْسَ بِهِ لِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ الْمُخَاطَرَةِ وَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ وَضَعَهُ لَهُ وَلَيْسَ عَلَى ذَلِكَ عَقَدَا بَيْعَهُمَا وَذَلِكَ الَّذِي عَلَيْهِ الْأَمْرُ عِنْدَنَا
جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع کیا دھوکے کی بیع سے کہا مالک نے دھوکے کی بیع میں یہ داخل ہے کسی شخص کا جانور گم ہوگیا ہو یا غلام بھاگ گیا ہو اور اس کی قیمت پچاس دینار ہو ایک شخص اس سے کہے میں تیرے اس جانور یا غلام کو بیس دینار کو لیتا ہوں اگر وہ مل گیا تو بائع (بچنے والا) کے تیس دینار نقصان ہوئے اور جو نہ ملا تو مشتری (خریدنے والا) کے پاس بیس دینار گئے۔ کہا مالک نے اس میں ایک بڑا دھوکا ہے معلوم نہیں وہ جانور یا غلام اسی حال میں ہے یا اس میں کوئی عیب ہوگیا یا ہنر ہوگیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت گھٹ بڑھ گئی۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ حمل کا خریدنا بھی دھوکے کی بیع میں داخل ہے معلوم نہیں بچہ نکلتا ہے یا نہیں اگر نکلے تو خوبصورت ہوگا یا بدصورت پورا ہوگا یا لنڈورا۔ نر ہو یا مادہ اور ہر ایک کی قیمت کم وبیش ہے۔ کہا مالک نے مادہ کو بیچنا اور اس کے حمل کو مشتثنی کرلینا درست نہیں جیسے کوئی کسی سے کہے میری دودھ والی بکری کی قیمت تین دینار ہیں تو دو دینار کو لے لے مگر اس کے پیٹ کا بچہ جب پیدا ہوگا تو میں لے لوں گا یہ مکروہ ہے درست نہیں۔ کہا مالک نے زیتون کی لکڑی اس کے تیل کے اور تل تیل کے بدلے میں اور مکھن گھی کے بدلے میں بیچنا درست نہیں اس لئے کہ یہ مزابنہ میں داخل ہے۔ اور اس میں دھوکہ ہے معلوم نہیں اس تل یا لکڑی یا مکھن میں اسی قدر تیل یا گھی نکلتا ہے یا اس سے کم یا زیادہ۔ کہا مالک نے اسی طرح حب البان کا بیچنا روغن بان کے بدلے میں نادرست ہے البتہ حب البان کو خوشبودار بان کے بدلے میں بیچنا درست ہے کیونکہ وہ خوشبو ملانے سے تیل کے حکم میں نہ رہا۔ کہا مالک نے ایک شخص نے اپنی چیز کسی کے ہاتھ اس شرط پر بیچی کہ مشتری (خریدنے والا) کو نقصان نہ ہوگا تو یہ جائز نہیں گویا بائع (بچنے والا) نے مشتری (خریدنے والا) کو نوکر رکھا اگر اس چیز میں نفع ہو اور اگر اتنے ہی کو بکے جتنے کو خریدا ہے یا کم کو مشتری (خریدنے والا) کی محنت برباد ہوئی تو یہ درست نہیں مشتری (خریدنے والا) کو اس کی محنت کے موافق مزدوری ملے گی اور جو کچھ نفع نقصان ہو بائع (بچنے والا) کا ہوگا مگر یہ حکم جب ہے کہ مشتری (خریدنے والا) اس چیز کو بیچ چکا ہو اگر اس نے نہیں بیچا تو بیع کو فسخ کریں گے۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی چیز بیچ ڈالی پھر مشتری (خریدنے والا) شرمندہ ہو کر بائع (بچنے والا) سے کہنے لگا کچھ قیمت کم کردے بائع (بچنے والا) نے انکار کیا اور کہا تو غم نہ کھابیچ دے تجھے نقصان نہ ہوگا اس میں کچھ قباحت نہیں نہ دھوکا ہے بلکہ بائع (بچنے والا) نے ایک رائے اپنی بیان کی کچھ اس شرط پر نہیں بیچا ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔
Top