مؤطا امام مالک - کتاب بیع کے بیان میں - حدیث نمبر 1266
عَنْ مُوسَی بْنِ مَيْسَرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَسْأَلُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ إِنِّي رَجُلٌ أَبِيعُ بِالدَّيْنِ فَقَالَ سَعِيدٌ لَا تَبِعْ إِلَّا مَا آوَيْتَ إِلَی رَحْلِکَ قَالَ مَالِك فِي الَّذِي يَشْتَرِي السِّلْعَةَ مِنْ الرَّجُلِ عَلَى أَنْ يُوَفِّيَهُ تِلْكَ السِّلْعَةَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِمَّا لِسُوقٍ يَرْجُو نَفَاقَهَا فِيهِ وَإِمَّا لِحَاجَةٍ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ الَّذِي اشْتَرَطَ عَلَيْهِ ثُمَّ يُخْلِفُهُ الْبَائِعُ عَنْ ذَلِكَ الْأَجَلِ فَيُرِيدُ الْمُشْتَرِي رَدَّ تِلْكَ السِّلْعَةِ عَلَى الْبَائِعِ إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ لِلْمُشْتَرِي وَإِنَّ الْبَيْعَ لَازِمٌ لَهُ وَإِنَّ الْبَائِعَ لَوْ جَاءَ بِتِلْكَ السِّلْعَةِ قَبْلَ مَحِلِّ الْأَجَلِ لَمْ يُكْرَهْ الْمُشْتَرِي عَلَى أَخْذِهَا قَالَ مَالِك فِي الَّذِي يَشْتَرِي الطَّعَامَ فَيَكْتَالُهُ ثُمَّ يَأْتِيهِ مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنْهُ فَيُخْبِرُ الَّذِي يَأْتِيهِ أَنَّهُ قَدْ اكْتَالَهُ لِنَفْسِهِ وَاسْتَوْفَاهُ فَيُرِيدُ الْمُبْتَاعُ أَنْ يُصَدِّقَهُ وَيَأْخُذَهُ بِكَيْلِهِ إِنَّ مَا بِيعَ عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ بِنَقْدٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَمَا بِيعَ عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ إِلَى أَجَلٍ فَإِنَّهُ مَكْرُوهٌ حَتَّى يَكْتَالَهُ الْمُشْتَرِي الْآخَرُ لِنَفْسِهِ وَإِنَّمَا كُرِهَ الَّذِي إِلَى أَجَلٍ لِأَنَّهُ ذَرِيعَةٌ إِلَى الرِّبَا وَتَخَوُّفٌ أَنْ يُدَارَ ذَلِكَ عَلَى هَذَا الْوَجْهِ بِغَيْرِ كَيْلٍ وَلَا وَزْنٍ فَإِنْ كَانَ إِلَى أَجَلٍ فَهُوَ مَكْرُوهٌ وَلَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا قَالَ مَالِك لَا يَنْبَغِي أَنْ يُشْتَرَى دَيْنٌ عَلَى رَجُلٍ غَائِبٍ وَلَا حَاضِرٍ إِلَّا بِإِقْرَارٍ مِنْ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ وَلَا عَلَى مَيِّتٍ وَإِنْ عَلِمَ الَّذِي تَرَكَ الْمَيِّتُ وَذَلِكَ أَنَّ اشْتِرَاءَ ذَلِكَ غَرَرٌ لَا يُدْرَى أَيَتِمُّ أَمْ لَا يَتِمُّ قَالَ وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا اشْتَرَى دَيْنًا عَلَى غَائِبٍ أَوْ مَيِّتٍ أَنَّهُ لَا يُدْرَى مَا يَلْحَقُ الْمَيِّتَ مِنْ الدَّيْنِ الَّذِي لَمْ يُعْلَمْ بِهِ فَإِنْ لَحِقَ الْمَيِّتَ دَيْنٌ ذَهَبَ الثَّمَنُ الَّذِي أَعْطَى الْمُبْتَاعُ بَاطِلًا قَالَ مَالِك وَفِي ذَلِكَ أَيْضًا عَيْبٌ آخَرُ أَنَّهُ اشْتَرَى شَيْئًا لَيْسَ بِمَضْمُونٍ لَهُ وَإِنْ لَمْ يَتِمَّ ذَهَبَ ثَمَنُهُ بَاطِلًا فَهَذَا غَرَرٌ لَا يَصْلُحُ قَالَ مَالِك وَإِنَّمَا فُرِقَ بَيْنَ أَنْ لَا يَبِيعَ الرَّجُلُ إِلَّا مَا عِنْدَهُ وَأَنْ يُسَلِّفَ الرَّجُلُ فِي شَيْءٍ لَيْسَ عِنْدَهُ أَصْلُهُ أَنَّ صَاحِبَ الْعِينَةِ إِنَّمَا يَحْمِلُ ذَهَبَهُ الَّتِي يُرِيدُ أَنْ يَبْتَاعَ بِهَا فَيَقُولُ هَذِهِ عَشَرَةُ دَنَانِيرَ فَمَا تُرِيدُ أَنْ أَشْتَرِيَ لَكَ بِهَا فَكَأَنَّهُ يَبِيعُ عَشَرَةَ دَنَانِيرَ نَقْدًا بِخَمْسَةَ عَشَرَ دِينَارًا إِلَى أَجَلٍ فَلِهَذَا كُرِهَ هَذَا وَإِنَّمَا تِلْكَ الدُّخْلَةُ وَالدُّلْسَةُ
قرض کے مختلف مسائل کا بیان
موسیٰ بن میسرہ نے سنا ایک شخص پوچھ رہا تھا سعید بن مسیب سے میں قرض کے بدل میں بیچا کرتا ہوں سعید نے کہا تو نہ بیچ مگر اس چیز کو جو تیرے پاس ہو۔ کہا مالک نے جو شخص کوئی چیز خرید کرے اس شرط پر کہ بائع (بچنے والا) وہ شئے مشتری (خریدنے والا) کو اتنی مدت میں سپرد کردے اس میں مشتری (خریدنے والا) نے کوئی مصلحت رکھی ہو مثلا اس وقت بازار میں اس مال کی نکاسی کی امید ہو یا اور کچھ غرض ہو پھر بائع (بچنے والا) اس وعدے میں خلاف کر اور مشتری (خریدنے والا) چاہے کہ وہ شئے بائع (بچنے والا) کو پھیر دے تو مشتری (خریدنے والا) کو یہ حق نہیں پہنچتا اور بیع لازم رہے گی اگر بائع (بچنے والا) اس شئے کو قبل میعاد کے لئے آیا تو مشتری (خریدنے والا) پر جبر نہ کیا جائے گا اس کے لینے پر۔ کہا مالک نے جو شخص اناج خرید کر اس کو تول لے پھر ایک خریدار آئے جو مشتری (خریدنے والا) سے اس اناج کو خرید کرنا چاہے مشتری (خریدنے والا) اس سے کہے کہ میں اناج تول چکا ہوں اور وہ شخص مشتری (خریدنے والا) کو سچا سمجھ کر اس غلے کو نقد مول لے لے تو کچھ قباحت نہیں مگر وعدے پر لینا مکروہ ہے جب تک وہ خریدار دوبارہ اس کو تول نہ لے۔ کہا مالک نے دین کا خریدنا درست نہیں خواہ غائب پر ہو یا حاضر پر مگر جب شخص حاضر اس کا اقرار کرے اسی طرح جو دین میت پر ہو اس کا بھی خریدنا درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکا ہے معلوم نہیں وہ قرض ملتا ہے یا نہیں اس واسطے اگر میت یا غائب پر اور بھی دین نکلا تو اس کے پیسے مفت گئے دوسرے یہ کہ وہ قرض اس کی ضمان میں داخل نہیں ہو اگر نہ پنٹا تو اس کے پیسے مفت گئے۔ کہا مالک نے بیع سلف (قرض) میں اور بیع عینہ میں یہ فرق ہے کہ بیع عینہ والا دس دینار نقد دے کر پندرہ دینار وعدے پر لیتا ہے تو یہ صریح دھوکا ہے اور بالکل فریب ہے۔
Top