مؤطا امام مالک - کتاب بیع کے بیان میں - حدیث نمبر 1269
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ أَفْلَسَ فَأَدْرَکَ الرَّجُلُ مَالَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ بَاعَ مِنْ رَجُلٍ مَتَاعًا فَأَفْلَسَ الْمُبْتَاعُ فَإِنَّ الْبَائِعَ إِذَا وَجَدَ شَيْئًا مِنْ مَتَاعِهِ بِعَيْنِهِ أَخَذَهُ وَإِنْ كَانَ الْمُشْتَرِي قَدْ بَاعَ بَعْضَهُ وَفَرَّقَهُ فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِهِ مِنْ الْغُرَمَاءِ لَا يَمْنَعُهُ مَا فَرَّقَ الْمُبْتَاعُ مِنْهُ أَنْ يَأْخُذَ مَا وَجَدَ بِعَيْنِهِ فَإِنْ اقْتَضَى مِنْ ثَمَنِ الْمُبْتَاعِ شَيْئًا فَأَحَبَّ أَنْ يَرُدَّهُ وَيَقْبِضَ مَا وَجَدَ مِنْ مَتَاعِهِ وَيَكُونَ فِيمَا لَمْ يَجِدْ أُسْوَةَ الْغُرَمَاءِ فَذَلِكَ لَهُ قَالَ مَالِك وَمَنْ اشْتَرَى سِلْعَةً مِنْ السِّلَعِ غَزْلًا أَوْ مَتَاعًا أَوْ بُقْعَةً مِنْ الْأَرْضِ ثُمَّ أَحْدَثَ فِي ذَلِكَ الْمُشْتَرَى عَمَلًا بَنَى الْبُقْعَةَ دَارًا أَوْ نَسَجَ الْغَزْلَ ثَوْبًا ثُمَّ أَفْلَسَ الَّذِي ابْتَاعَ ذَلِكَ فَقَالَ رَبُّ الْبُقْعَةِ أَنَا آخُذُ الْبُقْعَةَ وَمَا فِيهَا مِنْ الْبُنْيَانِ إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ لَهُ وَلَكِنْ تُقَوَّمُ الْبُقْعَةُ وَمَا فِيهَا مِمَّا أَصْلَحَ الْمُشْتَرِي ثُمَّ يُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُ الْبُقْعَةِ وَكَمْ ثَمَنُ الْبُنْيَانِ مِنْ تِلْكَ الْقِيمَةِ ثُمَّ يَكُونَانِ شَرِيكَيْنِ فِي ذَلِكَ لِصَاحِبِ الْبُقْعَةِ بِقَدْرِ حِصَّتِهِ وَيَكُونُ لِلْغُرَمَاءِ بِقَدْرِ حِصَّةِ الْبُنْيَانِ قَالَ مَالِك وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنْ تَكُونَ قِيمَةُ ذَلِكَ كُلِّهِ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَخَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَتَكُونُ قِيمَةُ الْبُقْعَةِ خَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَقِيمَةُ الْبُنْيَانِ أَلْفَ دِرْهَمٍ فَيَكُونُ لِصَاحِبِ الْبُقْعَةِ الثُّلُثُ وَيَكُونُ لِلْغُرَمَاءِ الثُّلُثَانِ قَالَ مَالِك وَكَذَلِكَ الْغَزْلُ وَغَيْرُهُ مِمَّا أَشْبَهَهُ إِذَا دَخَلَهُ هَذَا وَلَحِقَ الْمُشْتَرِيَ دَيْنٌ لَا وَفَاءَ لَهُ عِنْدَهُ وَهَذَا الْعَمَلُ فِيهِ قَالَ مَالِك فَأَمَّا مَا بِيعَ مِنْ السِّلَعِ الَّتِي لَمْ يُحْدِثْ فِيهَا الْمُبْتَاعُ شَيْئًا إِلَّا أَنَّ تِلْكَ السِّلْعَةَ نَفَقَتْ وَارْتَفَعَ ثَمَنُهَا فَصَاحِبُهَا يَرْغَبُ فِيهَا وَالْغُرَمَاءُ يُرِيدُونَ إِمْسَاكَهَا فَإِنَّ الْغُرَمَاءَ يُخَيَّرُونَ بَيْنَ أَنْ يُعْطُوا رَبَّ السِّلْعَةِ الثَّمَنَ الَّذِي بَاعَهَا بِهِ وَلَا يُنَقِّصُوهُ شَيْئًا وَبَيْنَ أَنْ يُسَلِّمُوا إِلَيْهِ سِلْعَتَهُ وَإِنْ كَانَتْ السِّلْعَةُ قَدْ نَقَصَ ثَمَنُهَا فَالَّذِي بَاعَهَا بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ أَنْ يَأْخُذَ سِلْعَتَهُ وَلَا تِبَاعَةَ لَهُ فِي شَيْءٍ مِنْ مَالِ غَرِيمِهِ فَذَلِكَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَكُونَ غَرِيمًا مِنْ الْغُرَمَاءِ يُحَاصُّ بِحَقِّهِ وَلَا يَأْخُذُ سِلْعَتَهُ فَذَلِكَ لَهُ و قَالَ مَالِك فِيمَنْ اشْتَرَى جَارِيَةً أَوْ دَابَّةً فَوَلَدَتْ عِنْدَهُ ثُمَّ أَفْلَسَ الْمُشْتَرِي فَإِنَّ الْجَارِيَةَ أَوْ الدَّابَّةَ وَوَلَدَهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَرْغَبَ الْغُرَمَاءُ فِي ذَلِكَ فَيُعْطُونَهُ حَقَّهُ كَامِلًا وَيُمْسِكُونَ ذَلِكَ
قرض دار کے مفلس ہوجانے کا بیان
ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا اور بائع (بچنے والا) نے اپنی چیز بعینہ مشتری (خریدنے والا) کے پاس پائی تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔ کہا مالک نے جس شخص نے کوئی اسباب بیچا پھر مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا اور بائع (بچنے والا) نے اپنی چیز بعینہ مشتری (خریدنے والا) کے پاس پائی تو بائع (بچنے والا) اس کو لے لے گا اگر مشتری (خریدنے والا) نے اس میں سے کچھ بیچ ڈالا ہے تو جس قدر باقی ہے اس کا بائع (بچنے والا) زیادہ حقدار ہے بہ نسبت اور قرضخواہوں کے۔ اگر بائع (بچنے والا) تھوڑی سی ثمن پاچکا ہے پھر بائع (بچنے والا) یہ چاہے کہ اس ثمن کو پھیر کر جس قدر اسباب اپنا باقی ہے اس کو لے لے اور جو کچھ باقی رہ جائے اس میں اور قرضخواہوں کے برابر ہے تو ہوسکتا ہے۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے سوت یا زمین خریدی پھر سوت کا کپڑا بن لیا اور زمین پر مکان بنایا بعد اس کے مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا اب زمین کا بائع (بچنے والا) یہ کہے کہ میں زمین اور مکان سب لئے لیتا ہوں تو یہ نہیں ہوسکتا بلکہ زمین کی اور عملے کی قیمت لگائیں کے پھر دیکھیں گے اس قیمت کا حصہ زمین پر کتنا آتا ہے اور عملے پر کتنا آتا ہے اب بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) دونوں اس میں شریک رہیں گے زمین کا مالک اپنے حصہ کے موافق اور باقی قرضخواہ عملے کے موافق۔ کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے جیسے زمین اور عملے کی قیمت پندرہ سو ہوئی اس میں سے زمین کی قیمت پانچ سو ہے اور عملے کی ہزار ہے تو زمین والے کا ایک ثلث ہوگا اور باقی قرضخواہوں کے دو ثلث ہوں گے۔ کہا مالک نے یہی حکم سوت میں ہے جب کہ مشتری (خریدنے والا) نے اس کو بن لیا بعد اس کے قرضدار ہو کر مفلس ہوگیا۔ کہا مالک نے اگر مشتری (خریدنے والا) نے اس چیز میں تصرف نہیں کیا مگر اس چیز کی قیمت بڑھ گئی اب بائع (بچنے والا) یہ چاہتا ہے کہ اپنی شئے پھیر لے اور قرضخواہ چاہتے ہیں کہ وہ شئے بائع (بچنے والا) کو نہ دیں گو قرضخواہ ہوں کو اختیار ہے خواہ بائع (بچنے والا) کی ثمن پوری پوری حوالے کردیں۔ اگر اس چیز کی قیمت گھٹ گئی تو بائع (بچنے والا) کو اختیار ہے خواہ اپنی چیز لے لے پھر اس کو مشتری (خریدنے والا) کے مال سے کچھ غرض نہ ہوگی خواہ اپنی چیز نہ لے اور قرضخواہوں کے ساتھ شریک ہوجائے۔ کہا مالک (رح) نے اگر کسی شخص نے لونڈی خریدی یا جانور خریدا پھر اس لونڈی یا جانور کا مشتری (خریدنے والا) کے پاس آن کر بچہ پیدا ہوا بعد اس کے مشتری (خریدنے والا) مفلس ہوگیا تو وہ بچہ بائع (بچنے والا) ہوگا البتہ اگر قرضخواہ بائع (بچنے والا) کی پوری ثمن ادا کردیں تو بچہ کو اور اس کی ماں کو دونوں کو رکھ سکتے ہیں۔
Top