مؤطا امام مالک - کتاب قرض کے بیان میں - حدیث نمبر 1283
بَاب الْقِرَاضِ فِي الْعُرُوضِ قَالَ يَحْيَى قَالَ مَالِك لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يُقَارِضَ أَحَدًا إِلَّا فِي الْعَيْنِ لِأَنَّهُ لَا تَنْبَغِي الْمُقَارَضَةُ فِي الْعُرُوضِ لِأَنَّ الْمُقَارَضَةَ فِي الْعُرُوضِ إِنَّمَا تَكُونُ عَلَى أَحَدِ وَجْهَيْنِ إِمَّا أَنْ يَقُولَ لَهُ صَاحِبُ الْعَرْضِ خُذْ هَذَا الْعَرْضَ فَبِعْهُ فَمَا خَرَجَ مِنْ ثَمَنِهِ فَاشْتَرِ بِهِ وَبِعْ عَلَى وَجْهِ الْقِرَاضِ فَقَدْ اشْتَرَطَ صَاحِبُ الْمَالِ فَضْلًا لِنَفْسِهِ مِنْ بَيْعِ سِلْعَتِهِ وَمَا يَكْفِيهِ مِنْ مَئُونَتِهَا أَوْ يَقُولَ اشْتَرِ بِهَذِهِ السِّلْعَةِ وَبِعْ فَإِذَا فَرَغْتَ فَابْتَعْ لِي مِثْلَ عَرْضِي الَّذِي دَفَعْتُ إِلَيْكَ فَإِنْ فَضَلَ شَيْءٌ فَهُوَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ وَلَعَلَّ صَاحِبَ الْعَرْضِ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى الْعَامِلِ فِي زَمَنٍ هُوَ فِيهِ نَافِقٌ كَثِيرُ الثَّمَنِ ثُمَّ يَرُدَّهُ الْعَامِلُ حِينَ يَرُدُّهُ وَقَدْ رَخُصَ فَيَشْتَرِيَهُ بِثُلُثِ ثَمَنِهِ أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ فَيَكُونُ الْعَامِلُ قَدْ رَبِحَ نِصْفَ مَا نَقَصَ مِنْ ثَمَنِ الْعَرْضِ فِي حِصَّتِهِ مِنْ الرِّبْحِ أَوْ يَأْخُذَ الْعَرْضَ فِي زَمَانٍ ثَمَنُهُ فِيهِ قَلِيلٌ فَيَعْمَلُ فِيهِ حَتَّى يَكْثُرَ الْمَالُ فِي يَدَيْهِ ثُمَّ يَغْلُو ذَلِكَ الْعَرْضُ وَيَرْتَفِعُ ثَمَنُهُ حِينَ يَرُدُّهُ فَيَشْتَرِيهِ بِكُلِّ مَا فِي يَدَيْهِ فَيَذْهَبُ عَمَلُهُ وَعِلَاجُهُ بَاطِلًا فَهَذَا غَرَرٌ لَا يَصْلُحُ فَإِنْ جُهِلَ ذَلِكَ حَتَّى يَمْضِيَ نُظِرَ إِلَى قَدْرِ أَجْرِ الَّذِي دُفِعَ إِلَيْهِ الْقِرَاضُ فِي بَيْعِهِ إِيَّاهُ وَعِلَاجِهِ فَيُعْطَاهُ ثُمَّ يَكُونُ الْمَالُ قِرَاضًا مِنْ يَوْمَ نَضَّ الْمَالُ وَاجْتَمَعَ عَيْنًا وَيُرَدُّ إِلَى قِرَاضٍ مِثْلِهِ
جس طرح مضاربت درست ہے اس کا بیان
کہا مالک نے مضاربت در نہیں درست ہے مگر سونے چاندی اور اسباب میں درست نہیں کیونکہ اسباب میں مضارب دو طرح پر ہوگی ایک یہ کہ رب المال مضارب کو اسباب دے اور کہے اس کو بیچ کر اس کے داموں میں مضاربت کر یہ درست نہیں کیونکہ اس میں رب المال کا ایک خاص فائدہ ہوا وہ یہ کہ اس کا اسباب بغیر وقت کے بک گیا دوسری شکل یہ ہے کہ رب المال مضارب کو اسباب میں دے کر یہ کہے اس اسباب کے بدلے میں اور اسباب خرید کر کے تجارت کر جب معاملہ ختم کرنا منظور ہو تو جیسا اسباب میں نے دیا ہے ویسا ہی اسباب خرید کر کے دینا جو بچ رہے وہ ہم تم بانٹ لیں گے یہ بھی درست نہیں کیوکنہ اس میں دھوکا ہے شاید جس وقت یہ اسباب رب المال نے مضارب کو دیا ہے گراں ہو پھر جس وقت ارزاں خریدے تو مضارب راس المال میں سے نفع کمالے گا شاید جس وقت رب المال نے دیا ہے اس وقت ارزاں ہو۔ پھر معاملہ ختم ہوتے وقت گراں ہوجائے تو مضارب کا صل اور نفع سب اس کی خرید میں صرف ہوجائے اور مضارب کی کوشش اور محنت برباد ہوجائے اس پر بھی اگر کوئی اس طرح مضاربت کرے تو پہلے مضارب کو اس اسباب کے بیچنے کے دستور کے موافق اجرت دلا کر جس روز سے راس المال نقد ہوا ہے مضارب قائم کریں گے پھر معاملہ ختم ہوتے وقت بھی اس قدر نقد کو راس المال سمجھیں۔
Top