مؤطا امام مالک - کتاب نکاح کے بیان میں - حدیث نمبر 998
عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ قَالَ سُئِلَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً ثُمَّ فَارَقَهَا قَبْلَ أَنْ يُصِيبَهَا هَلْ تَحِلُّ لَهُ أُمُّهَا فَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ لَا الْأُمُّ مُبْهَمَةٌ لَيْسَ فِيهَا شَرْطٌ وَإِنَّمَا الشَّرْطُ فِي الرَّبَائِبِ و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ اسْتُفْتِيَ وَهُوَ بِالْكُوفَةِ عَنْ نِكَاحِ الْأُمِّ بَعْدَ الْابْنَةِ إِذَا لَمْ تَكُنْ الِابْنَةُ مُسَّتْ فَأَرْخَصَ فِي ذَلِكَ ثُمَّ إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَسَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ كَمَا قَالَ وَإِنَّمَا الشَّرْطُ فِي الرَّبَائِبِ فَرَجَعَ ابْنُ مَسْعُودٍ إِلَى الْكُوفَةِ فَلَمْ يَصِلْ إِلَى مَنْزِلِهِ حَتَّى أَتَى الرَّجُلَ الَّذِي أَفْتَاهُ بِذَلِكَ فَأَمَرَهُ أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَهُ قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ تَكُونُ تَحْتَهُ الْمَرْأَةُ ثُمَّ يَنْكِحُ أُمَّهَا فَيُصِيبُهَا إِنَّهَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ وَيُفَارِقُهُمَا جَمِيعًا وَيَحْرُمَانِ عَلَيْهِ أَبَدًا إِذَا كَانَ قَدْ أَصَابَ الْأُمَّ فَإِنْ لَمْ يُصِبْ الْأُمَّ لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ وَفَارَقَ الْأُمَّ و قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ ثُمَّ يَنْكِحُ أُمَّهَا فَيُصِيبُهَا إِنَّهُ لَا تَحِلُّ لَهُ أُمُّهَا أَبَدًا وَلَا تَحِلُّ لِأَبِيهِ وَلَا لِابْنِهِ وَلَا تَحِلُّ لَهُ ابْنَتُهَا وَتَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ قَالَ مَالِك فَأَمَّا الزِّنَا فَإِنَّهُ لَا يُحَرِّمُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ فَإِنَّمَا حَرَّمَ مَا كَانَ تَزْوِيجًا وَلَمْ يَذْكُرْ تَحْرِيمَ الزِّنَا فَكُلُّ تَزْوِيجٍ كَانَ عَلَى وَجْهِ الْحَلَالِ يُصِيبُ صَاحِبُهُ امْرَأَتَهُ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ التَّزْوِيجِ الْحَلَالِ فَهَذَا الَّذِي سَمِعْتُ وَالَّذِي عَلَيْهِ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَنَا
ساس سے نکاح جائز نہ ہونے کا بیان
یحییٰ بن سعید نے کہا کہ زید بن ثابت ؓ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے نکاح کیا ایک عورت سے پھر چھوڑ دیا اس کو جماع کرنے سے پہلے کیا اس کی ماں سے نکاح درست ہے بولے نہیں کیونکہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا تم پر تمہاری بیبیوں کی مائیں حرام ہیں اور اس میں کوئی شرط نہیں لگائی کہ جن بیبیوں سے تم جماع کرچکے ہو بلکہ شرط ربائب میں لگائی ہے۔ عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا کہ کوفہ میں ایک عورت سے نکاح کیا پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا اب اس کی ماں سے نکاح کرنا کیسا ہے انہوں نے کہا کہ درست ہے پھر ابن مسعود مدینہ میں آئے اور تحقیق کی معلوم ہوا کہ بی بی کی ماں مطلقا حرام ہے خواہ بی بی سے صحبت کرے یا نہ کرے اور صحبت کی قید ربائب میں ہے جب ابن مسعود کوفہ کو لوٹے پہلے اس شخص کے مکان پر گئے جس کو مسئلہ بتایا تھا اس سے کہا اس عورت کو چھوڑ دے۔ کہا مالک نے ایک شخص نے نکاح کیا ایک عورت سے پھر اس کی ماں سے نکاح کیا اور صحبت کی تو دونوں ماں بیٹی اس کو حرام ہوجائیں گئی ہمیشہ ہمیشہ۔ کہا مالک نے ایک شخص نکاح کرے ایک عورت سے پھر نکاح کرے اس کی ماں سے اور صحبت کرے اس سے تو اس پر اس عورت کی ماں کی ماں بھی حرام ہوجائے گی اور ماں (ساس) حرام رہے گی اس شخص کے باپ اور بیٹے پر۔ کہا مالک نے زنا سے حرمت ثابت نہ ہوگی۔
Yahya related to me from Malik from Yahya ibn Said that Zayd ibn Thabit asked whether it was halal for a man who married a woman and then separated from her before he had cohabited with her, to marry her mother. Zayd ibn Thabit said, "No. The mother is prohibited unconditionally. There are conditions, however about foster-mothers."
Top