مشکوٰۃ المصابیح - پیرى مریدى کے متعلق - حدیث نمبر 2741
محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان
متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک شکار یا شکار میں کسی کی اعانت محرم کے لئے حرام ہے، چناچہ کسی شکار کے جانور کو قتل کرنے یا اس کے قتل میں اعانت کرنے سے محرم پر جزاء لازم آتی ہے۔ شکار کی جزاء یا کفارہ شکار کی وجہ سے محرم پر جو جزاء یا کفارہ لازم ہوتا ہے اس سے مراد وہ قیمت ہے جو دو عادل و تجربہ کار شخص اس شکار کی تجویز کریں اور یہ قیمت یا تو اس مقام کے اعتبار سے ہو جہاں وہ شکار مارا گیا ہے یا اگر اس مقام پر کوئی قیمت نہ ہو تو اس مقام کے اعتبار سے ہو جو شکار کے مقام سے قریب تر ہو کیونکہ ایک چیز کی قیمت مختلف مقامات کے اعتبار سے بدل جاتی ہے، اسی طرح یہ قیمت اس زمانہ کے اعتبار سے ہو جس میں وہ شکار مارا گیا ہے کیونکہ ایک چیز کی قیمت مختلف اوقات و زمانہ میں بدل جاتی ہے، پھر اس بارے میں محرم کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو وہ اس مجوزہ قیمت سے قربانی کا کوئی جانور خرید کر اگر اس قیمت میں کوئی جانور مل سکتا ہو حرم میں ذبح کر دے اور چاہے اس قیمت سے غلہ خرید کر ہر فقیر کو، اگر گیہوں ہو تو نصف نصف صاع اور اگر جو یا کھجور ہو تو ایک ایک صاع تقسیم کر دے کسی فقیر کو اس تعداد سے کم نہ دے اور چاہے ہر فقیر کی تعداد صدقہ یعنی نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جَو کے عوض ایک روزہ رکھ لے اور اس صورت میں اگر ایک فقیر کے مقدار صدقہ کا کوئی حصہ باقی بچے تو اس کو خیرات کر دے یا اس کے بدلہ بھی ایک روزہ رکھ لے۔ اس صورت میں یہ بات ملحوظ رہے کہ شکار کی جزا بہر صورت واجب ہوگی خواہ کوئی محرم قصداً شکار مارے یا سہوا اس کا مرتکب ہوجائے۔ اگر کوئی محرم کسی شکار کے ہاتھ پیر کاٹ دے یا اس کے پر نوچ اکھاڑ دے کہ جس کی وجہ سے وہ اپنی حفاظت سے معذور ہوجائے تو اس شکار کی پوری قیمت دینا پڑے گی اور اس کا دودھ دوہے تو اس دودھ کی قیمت اس پر واجب ہوگی، اسی طرح اگر اس کا انڈا توڑ دے تو اس کی قیمت دینی پڑے گی۔ محرم شکار کھائے یا نہ کھائے؟ اس بارے میں تفصیل ہے اس بات میں تو بالاتفاق تمام علماء کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی محرم خود شکار کرے یا کوئی دوسرا محرم شکار کرے تو وہ شکار کھانا محرم کے لئے حرام ہے ہاں اگر صورت یہ ہو کہ کوئی غیر محرم اپنے لئے شکار کرے یا محرم کے لئے اس کی اجازت سے یا اس کی اجازت کے بغیر شکار کرے تو اس کے کھانے کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال و مسلک ہیں چناچہ بعض صحابہ وتابعین کہ جس میں حضرت علی ؓ بھی ہیں کا قول تو یہ ہے کہ محرم کے لئے مطلق شکار کھانا حرام ہے، ان کی دلیل حضرت صعب ابن جثامہ ؓ کی روایت ہے جو اس باب کی پہلی حدیث ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ اگر محرم خود شکار کرے یا کوئی دوسرا شخص اس کے لئے یا اس کی اجازت سے یا اس کی اجازت کے بغیر شکار کرے تو اس کے لئے اس شکار کو کھانا حرام ہے۔ ہاں اگر کوئی غیر محرم اپنے لئے شکار کرے اور اس میں سے کچھ بطور ہدیہ محرم کو بھیجے تو اس کا کھانا اس کے لئے حلال ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء کا مسلک یہ ہے کہ محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا حلال ہے خواہ وہ شکار اس کے لئے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو بشرطیکہ وہ شکار نہ تو اس نے خود کیا ہو، نہ اس شکار کرنے کا کسی کو حکم دیا ہو، نہ اس شکار کی راہ کسی کو دکھائی ہو، نہ اس شکار کی طرف کسی کو متوجہ کیا ہو اور نہ اس شکار میں خود اس نے یا کسی اور محرم نے اعانت کی ہو۔ حنفیہ کی دلیل حضرت ابوقتادہ ؓ کی روایت ہے۔ شکار سے کون جانور مراد ہیں؟ محرم کے لئے جس شکار کی ممانعت ہے اس سے مراد جنگلی شکار کو قتل کرنا ہے۔ جنگلی ان جانوروں کو کہتے ہیں جن کا توالد و تناسل خشکی یا جنگل میں ہوتا ہو گو ان کی بود و باش پانی میں ہو جیسے مرغابی وغیرہ۔ اسی طرح شکار اس جانور کو کہتے ہیں جو اصل خلقت میں وحشی ہو خواہ وہ کسی وجہ سے مانوس ہوگیا ہو جیسے ہرن کہ وہ پالنے والے سے مانوس ہوجاتا ہے مگر چونکہ وہ دراصل وحشی ہے اس لئے شکار کہلائے گا خواہ وہ جنگل میں رہتا ہو یا پلا ہوا ہو بہر صورت اس کا شکار کرنے سے جزا واجب ہوگی۔ جو جانور دراصل وحشی نہ ہو اس کا قتل کرنا حالت احرام میں بھی جائز ہے چناچہ بکری، دنبہ، بھیڑ گائے اونٹ اور گھر کی پلی ہوئی بطخ کو ذبح کرنا محرم کے لئے جائز ہے۔ کبوتر کو فقہاء نے وحشی الاصل قرار دیا ہے اس لئے اس کے شکار پر جزا واجب ہوتی ہے۔ دریائی جانوروں کا شکار آیت کریمہ۔ (اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُه) 5۔ المائدہ 96)۔ کے پیش نظر محرم اور غیر محرم دونوں کے لئے حلال ہے خواہ وہ جانور کھائے جانے والے ہوں یا کھائے جانے والے نہ ہوں۔ جو جنگلی جانور کھائے جاتے ہیں ان کا شکار تو متفقہ طور پر حرام ہے، ہاں جو جانور کھائے نہیں جاتے ان کو صاحب بدائع نے دو قسمیں کی ہیں ایک قسم تو ان جانوروں کی ہے جو طبعاً ایذاء پہنچاتے ہیں اور اکثر و بیشتر ایذاء پہنچانے میں خود ابتداء کرتے ہیں، جیسے شیر، چیتا اور بھیڑیا چناچہ ان جانوروں کو قتل کرنا محرم کے لئے جائز ہے اور ان کو قتل کرنے سے محرم پر جزاء واجب نہیں ہوتی، دوسری قسم ان جانوروں کی ہے جو ایذا پہنچانے میں ابتداء نہیں کرتے جیسے چرغ (شکرہ کی ایک قسم وغیرہ) ایسے جانوروں کے بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر یہ جانور محرم پر پہلے حملہ کریں تو وہ ان کو مار سکتا ہے اور اس کی وجہ سے اس پر جزاء واجب نہیں ہوگی اور اگر وہ حملہ نہ کریں تو پھر محرم کے لئے یہ مباح نہیں ہے کہ وہ ان کو مارنے میں ابتداء کرے اگر ابتداء کرے گا تو اس پر جزا واجب ہوگی۔
Top