Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4525 - 4805)
Select Hadith
4525
4526
4527
4528
4529
4530
4531
4532
4533
4534
4535
4536
4537
4538
4539
4540
4541
4542
4543
4544
4545
4546
4547
4548
4549
4550
4551
4552
4553
4554
4555
4556
4557
4558
4559
4560
4561
4562
4563
4564
4565
4566
4567
4568
4569
4570
4571
4572
4573
4574
4575
4576
4577
4578
4579
4580
4581
4582
4583
4584
4585
4586
4587
4588
4589
4590
4591
4592
4593
4594
4595
4596
4597
4598
4599
4600
4601
4602
4603
4604
4605
4606
4607
4608
4609
4610
4611
4612
4613
4614
4615
4616
4617
4618
4619
4620
4621
4622
4623
4624
4625
4626
4627
4628
4629
4630
4631
4632
4633
4634
4635
4636
4637
4638
4639
4640
4641
4642
4643
4644
4645
4646
4647
4648
4649
4650
4651
4652
4653
4654
4655
4656
4657
4658
4659
4660
4661
4662
4663
4664
4665
4666
4667
4668
4669
4670
4671
4672
4673
4674
4675
4676
4677
4678
4679
4680
4681
4682
4683
4684
4685
4686
4687
4688
4689
4690
4691
4692
4693
4694
4695
4696
4697
4698
4699
4700
4701
4702
4703
4704
4705
4706
4707
4708
4709
4710
4711
4712
4713
4714
4715
4716
4717
4718
4719
4720
4721
4722
4723
4724
4725
4726
4727
4728
4729
4730
4731
4732
4733
4734
4735
4736
4737
4738
4739
4740
4741
4742
4743
4744
4745
4746
4747
4748
4749
4750
4751
4752
4753
4754
4755
4756
4757
4758
4759
4760
4761
4762
4763
4764
4765
4766
4767
4768
4769
4770
4771
4772
4773
4774
4775
4776
4777
4778
4779
4780
4781
4782
4783
4784
4785
4786
4787
4788
4789
4790
4791
4792
4793
4794
4795
4796
4797
4798
4799
4800
4801
4802
4803
4804
4805
مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 3111
نکاح کا بیان
نکاح کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا لیکن اس لفظ کا اطلاق مجامعت کرنے اور عقد کے معنی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ مجامعت اور عقد دونوں ہی میں جمع ہونا اور ملنا پایا جاتا ہے لہذا اصول فقہ میں نکاح کے یہی معنی یعنی جمع ہونا بمعنی مجامعت کرنا مراد لینا چاہئے بشرطیکہ ایسا کوئی قرینہ نہ ہو جو اس معنی کے خلاف دلالت کرتا ہو۔ علماء فقہ کی اصطلاح میں نکاح اس خاص عقد و معاہدہ کو کہتے ہیں جو مرد و عورت کے درمیان ہوتا ہے اور جس سے دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے نکاح کی اہمیت نکاح یعنی شادی صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، ایک شخصی ضرورت، ایک طبعی خواہش اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ انسانی کے وجود وبقاء کا ایک بنیادی ستون بھی ہے اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت و فضیلت کا حامل بھی ہے۔ نکاح کی اہمیت اور اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے شریعت محمدی ﷺ تک کوئی ایسی شریعت نہیں گزری ہے جو نکاح سے خالی رہی ہو اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ ایسی کوئی عبادت نہیں ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر اب تک مشروع ہو اور جنت میں بھی باقی رہے سوائے نکاح اور ایمان کے چناچہ ہر شریعت میں مرد و عورت کا اجتماع ایک خاص معاہدہ کے تحت مشروع رہا ہے اور بغیر اس معاہدہ کے مرد و عورت کا باہمی اجتماع کسی بھی شریعت و مذہب نے جائز قرار نہیں دیا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس معاہدہ کی صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے شرائط و احکام میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے۔ چناچہ اس بارے میں اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں جو احکام نافذ کئے ہیں اور جو قواعد و ضوابط وضع کئے ہیں اس باب سے ان کی ابتداء ہو رہی ہے۔ نکاح کے فوائد وآفات نکاح کا جہاں سب سے بڑا عمومی فائدہ نسل انسانی کا بقاء اور باہم توالد وتناسل کا جاری رہنا ہے وہیں اس میں کچھ مخصوص فائدے اور بھی ہیں جن کو پانچ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ -1 نکاح کرلینے سے ہیجان کم ہوجاتا ہے یہ جنسی ہیجان انسان کی اخلاقی زندگی کا ایک ہلاکت خیز مرحلہ ہوتا ہے جو اپنے سکون کی خاطر مذہب و اخلاق ہی کی نہیں شرافت و انسانیت کی بھی ساری پابندیاں توڑ ڈالنے سے گریز نہیں کرتا، مگر جب اس کو جائز ذرائع سے سکون مل جاتا ہے تو پھر یہ پابند اعتدال ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جائز ذریعہ صرف نکاح ہی ہوسکتا ہے۔ -2 نکاح کرنے سے اپنا گھر بستا ہے خانہ داری کا آرام ملتا ہے گھریلو زندگی میں سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور گھریلو زندگی کے اس اطمینان و سکون کے ذریعہ حیات انسانی کو فکر و عمل کے ہر موڑ پر سہارا ملتا ہے۔ -3 نکاح کے ذریعہ سے کنبہ بڑھتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو مضبوط و زبردست محسوس کرتا ہے اور معاشرہ میں اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے اپنا رعب داب قائم رکھتا ہے۔ -4 نکاح کرنے سے نفس مجاہدہ کا عادی ہوتا ہے کیونکہ گھر بار اور اہل و عیال کی خبر گیری و نگہداشت اور ان کی پرورش و پرداخت کے سلسلہ میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے اس مسلسل جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بےعملی اور لاپرواہی کی زندگی سے دور رہتا ہے جو اس کے لئے دنیاوی طور پر بھی نفع بخش ہے اور اس کیوجہ سے وہ دینی زندگی یعنی عبادات و طاعات میں بھی چاق و چوبند رہتا ہے۔ -5 نکاح ہی کے ذریعہ صالح و نیک بخت اولاد پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کی زندگی کا سب سے گراں مایہ سرمایہ اس کی صالح اور نیک اولاد ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف دنیا میں سکون و اطمینان اور عزت ونیک نامی کی دولت حاصل کرتا ہے بلکہ اخروی طور پر بھی فلاح وسعادت کا حصہ دار بنتا ہے۔ یہ تو نکاح کے فائدے تھے لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو نکاح کی وجہ سے بعض لوگوں کے لئے نقصان و تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں اور جنہیں نکاح کی آفات کہا جاتا ہے چناچہ ان کو بھی چھ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ -1 طلب حلال سے عاجز ہونا یعنی نکاح کرنے کی وجہ سے چونکہ گھر بار کی ضروریات لاحق ہوجاتی ہیں اور طرح طرح کے فکر دامن گیر رہتے ہیں اس لئے عام طور پر طلب حلال میں وہ ذوق باقی نہیں رہتا جو ایک مجرد و تنہا زندگی میں رہتا ہے۔ -2 حرام امور میں زیادتی ہونا۔ یعنی جب بیوی کے آجانے اور بال بچوں کے ہوجانے کی وجہ سے ضروریات زندگی بڑھ جاتی ہیں تو بسا اوقات اپنی زندگی کا وجود معیار برقرار رکھنے کے لئے حرام امور کے ارتکاب تک سے گریز نہیں کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ذہن وعمل سے حلال و حرام کی تمیز بھی اٹھ جاتی ہے اور بلا جھجک حرام چیزوں کو اختیار کرلیا جاتا ہے۔ -3 عورتوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہونا۔ اسلام نے عورتوں کو جو بلند وبالا حقوق عطا کئے ہیں ان میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک اور حسن معاشرت کا ایک خاص درجہ ہے لیکن ایسے بہت کم لوگ ہیں جو بیوی کے حقوق کا لحاظ کرتے ہوں بلکہ بدقسمتی سے چونکہ بیوی کو زیردست سمجھ لیا جاتا ہے اس لئے عورتوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ برے سلوک و برتاؤ بھی ایک ذاتی معاملہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، حالانکہ یہ چیز ایک انسانی اور معاشرتی بد اخلاقی ہی نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر بھی بڑے گناہ کی حامل ہے اور اس سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔ -4 عورتوں کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنا عام طور پر شوہر چونکہ اپنے آپ کو بیوی سے برتر سمجھتا ہے اس لئے اگر بیوی کی طرف سے ذرا سی بھی بدمزاجی ہوئی تو ناقابل برداشت ہوجاتی ہے اور صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے فورا چھوٹ جاتا ہے۔ -5 عورت کی ذات سے تکلیف اٹھانا بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی بدمزاجی و بداخلاقی کی وجہ سے اپنے شوہروں کے لئے تکلیف و پریشانی کا ایک مستقل سبب بن جاتی ہیں اس کی وجہ سے گھریلو ماحول غیر خوشگوار اور زندگی غیر مطمئن و اضطراب انگیز بن جاتی ہے۔ -6 بیوی بچوں کی وجہ سے حقوق اللہ کی ادائیگی سے باز رہنا یعنی ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی گھریلو زندگی کے استحکام اور بیوی بچوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ اپنی دینی زندگی کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوں جب کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بیوی بچوں اور گھر بار کے ہنگاموں اور مصروفیتوں میں پڑ کر دینی زندگی مضمحل وبے عمل ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو عبادات و طاعات کا خیال رہتا ہے نہ حقوق اللہ کی ادائیگی پورے طور پر ہو پاتی ہے۔ نکاح کے ان فوائد وآفات کو سامنے رکھ کر اب یہ سمجھئے کہ اگر یہ دونوں مقابل ہوں یعنی فوائد وآفات برابر، برابر ہوں، تو جس چیز سے دین کی باتوں میں زیادتی ہوتی ہو اسے ترجیح دی جائے مثلا ایک طرف تو نکاح کا یہ فائدہ ہو کہ اس کی وجہ سے جنسی ہیجان کم ہوتا ہے اور دوسری طرف نکاح کرنے سے یہ دینی نقصان سامنے ہو کہ عورت کی بدمزاجی پر صبر نہیں ہو سکے گا تو اس صورت میں نکاح کرنے ہی کو ترجیح دی جائے کیونکہ اگر نکاح نہیں کرے گا تو زنا میں مبتلا ہوجائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ چیز عورت کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنے سے کہیں زیادہ دینی نقصان کا باعث ہے۔ نکاح کے احکام -1 حنفی مسلک کے مطابق نکاح کرنا اس صورت میں فرض ہوتا ہے جب کہ جنسی ہیجان اس درجہ غالب ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو اور بیوی کے مہر پر اور اس کے نفقہ پر قدرت حاصل نہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بجائے اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ ہوگا۔ -2 نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہوجاتا ہے جب کہ جنسی ہیجان کا غلبہ ہو مگر اس درجہ کا غلبہ نہ ہو کہ زنا میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو، نیز مہر و نفقہ کی ادائیگی کی قدرت رکھتا ہو اور بیوی پر ظلم کرنے کا خوف نہ ہو۔ اگر کسی شخص پر جنسی ہیجان کا غلبہ تو ہو مگر وہ مہر اور بیوی کے اخراجات کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ نکاح نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا جب کہ مہر اور نفقہ پر قادر شخص جنسی ہیجان کی صورت میں نکاح نہ کرنے سے گناہ گار ہوتا ہے۔ -3 اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت مؤ کدہ ہے اعتدال کی حالت سے مراد یہ ہے کہ جنسی ہیجان کا غلبہ تو نہ ہو لیکن بیوی کے ساتھ مباشرت و مجامعت کی قدرت رکھتا ہو اور مہر و نفقہ کی ادائیگی پر بھی قادر ہو۔ لہذا اس صورت میں نکاح نہ کرنیوالا گنہگار ہوتا ہے جب کہ زنا سے بچنے اور افزائش نسل کی نیت کے ساتھ نکاح کرنیوالا اجر وثواب سے نوازا جاتا ہے۔ -4 نکاح کرنا اس صورت میں مکروہ ہے جب کہ بیوی پر ظلم کرنے کا خوف ہو یعنی اگر کسی شخص کو اس بات کا خوف ہو کہ میرا مزاج چونکہ بہت برا اور سخت ہے اس لئے میں بیوی پر ظلم و زیادتی کروں گا تو ایسی صورت میں نکاح کرنا مکروہ ہے -5 نکاح کرنا اس صورت میں حرام ہے جبکہ بیوی پر ظلم کرنے کا یقین ہو یعنی اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ میں اپنے مزاج کی سختی وتندی کی وجہ سے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک قطعا نہیں کرسکتا بلکہ اس پر میری طرف سے ظلم ہونا بالکل یقینی چیز ہے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا اس کے لئے حرام ہوگا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شریعت نے نکاح کے بارے میں مختلف حالات کی رعایت رکھی ہے بعض صورتوں میں تو نکاح کرنا فرض ہوجاتا ہے بعض میں واجب اور بعض میں سنت مؤ کدہ ہوتا ہے جب کہ بعض صورتوں میں نکاح کرنا مکروہ بھی ہوتا ہے اور بعض میں تو حرام ہوجاتا ہے لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اسی صورت کے مطابق عمل کرے جو اس کی حالت کے مطابق ہو۔ نکاح کے مستحبات جب کوئی شخص نکاح کرنا چاہے خوہ مرد ہو یا عورت تو چاہئے کہ نکاح کا پیغام دینے سے پہلے ایک دوسرے کے حالات کی اور عادات واطوار کی خوب اچھی طرح جستجو کرلی جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی ایسی چیز معلوم ہو جو طبیعت ومزاج کے خلاف ہو نیکی وجہ سے زوجین کے درمیان ناچاقی وکشیدگی کا باعث بن جائے۔ یہ مستحب ہے کہ عمر، عزت، حسب اور مال میں بیوی خاوند سے کم ہو اور اخلاق و عادات خوش سلیقی وآداب حسن و جمال اور تقوی میں خاوند سے زیادہ ہو اور مرد کے لئے یہ بھی مسنون ہے کہ وہ جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اس کو نکاح سے پہلے دیکھ لے بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ میں اگر اس کو پیغام دوں گا تو منظور ہوجائے گا۔ مستحب ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے گا اور نکاح کی مجلس اعلانیہ طور پر منعقد کی جائے جس میں دونوں طرف سے اعزہ و احباب نیز بعض علماء وصلحا بھی شریک۔ اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ نکاح پڑھانے والا نیک بخت و صالح ہو اور گواہ عادل وپرہیزگارہوں۔ ایجاب و قبول اور ان کے صحیح ہونے کی شرائط نکاح ایجاب و قبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے اور ایجاب و قبول دونوں ماضی کے لفظ کے ساتھ ہونے چاہئیں (یعنی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے یہ بات سمجھی جائے کہ نکاح ہوچکا ہے) جیسے عورت یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں دیا، یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ میں نے فلاں عورت کا جس کا نام یہ ہے، تمہارے ساتھ نکاح کیا اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے منظور کیا یا ایجاب میں سے کوئی ایک ماضی کے لفظ کے ساتھ ہو جیسے عورت یہ کہے کہ مجھ سے نکاح کرلو یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ فلاں عورت سے جس کا نام یہ ہے نکاح کرلو اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے نکاح کرلیا۔ یا اس کا برعکس ہو، جیسے مرد یہ کہے کہ میں نے تمہارے ساتھ اپنا نکاح کرلیا اور اس کے جواب میں عورت یہ کہے کہ میں منظور کرتی ہوں اور اگر مرد، عورت سے یوں کہے کہ کیا تم نے اپنے آپ کو میری زوجیت میں دیا؟ یا کہے کہ کیا تم نے مجھے قبول کیا اور اس کے جواب میں عورت ( ہاں میں نے دیا یا ہاں میں نے قبول کیا کہنے کی بجائے) صرف یہ کہے کہ ہاں دیا۔ یا ہاں قبول کیا ( یعنی لفظ میں نہ کہے) تو اس صورت میں بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ البتہ گواہوں کے سامنے صرف یہ کہنے سے کہ ہم بیوی خاوند ہیں، نکاح نہیں ہوتا۔ جس طرح ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ استعمال کرنا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ایجاب و قبول میں خاص کر نکاح اور تزوجی کا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تمہارے ساتھ تزویج کیا۔ یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تہارے ساتھ تزویج کیا یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے جو نکاح کا مطلب صراحۃ ادا کرتا ہو جیسے مرد یوں کہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیوی بنا لیا یا یوں کہے کہ میں تمہارا شوہر ہوگیا یا یوں کہے کہ تم میری ہوگئیں۔ اور نکاح وتزویج یا اس کا ہم معنی لفظ صراحۃً استعمال نہ کیا جائے بلکہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے کنیۃً نکاح کا مفہوم سمجھا جاتا ہو تو یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ لفظ ایسا ہو جس کے ذریعہ سے کسی ذات کامل کی ملکیت فی الحال حاصل کی جاتی ہو جیسے ہبہ کا لفظ یا صدقہ کا لفظ یا تملیک کا لفظ یا بیع وشراء کا لفظ جیسے بیوی یوں کہے کہ میں نے اپنی زوجیت تمہیں ہبہ کردی، یا میں نے اپنی ذات تمہیں بطور صدقہ دیدی یا میں نے تمہیں اپنی ذات کا مالک بنادیا یا یوں کہے کہ میں نے تمہیں اس قدر روپیہ کے عوض خرید لیا اور ان سب کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے قبول کیا، لیکن اس کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ متکلم نے اس لفظ سے نکاح مراد لیا ہو اور کوئی قرینہ اس پر دلالت کرتا ہو اور اگر کوئی قرینہ نہ ہو تو قبول کرنیوالے نے متکلم کی مراد کی تصدیق کردی ہو نیز گواہوں نے بھی سمجھ لیا ہو کہ اس لفظ سے مراد نکاح ہے خواہ انہوں نے کسی قرینہ سے سمجھا ہو یا بتادینے سے سمجھا ہو۔ ایجاب و قبول کے وقت عاقدین ( دولہا دولہن) میں سے ہر ایک کے لئے دوسرے کا کلام سننا ضروری ہے خواہ وہ بالاصالۃ ( یعنی خود) سنیں خواہ بالوکالۃ ( یعنی ان کے وکیل سنیں) اور خواہ بالولایۃ سنیں (یعنی ان کا ولی سنے) ایجاب و قبول کے وقت دو گواہوں کی موجودگی نکاح صحیح ہونے کی شرط ہے اور یہ گواہ خواہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہو، گواہوں کا آزاد ہونا ضروری ہے لونڈی یا غلام گواہوں کی گواہی معتبر نہیں ہوگی، اسی طرح گواہوں کا عاقل اور مسلمان ہونا بھی ضروری ہے مسلمانوں کی گواہی ہر حال میں کافی ہوگی خواہ وہ پرہیزگار ہوں یا فاسق ہوں اور خواہ ان پر حد قذف لگائی جا چکی ہو۔ گواہوں کا بینا ہونا یا زوجین کا رشتہ دار نہ ہونا شرط نہیں ہے، چناچہ اندھو کی گواہی اور زوجین کے رشتہ داروں کی گواہی معتبر ہوگی خواہ وہ زوجین کے یا ان میں سے کسی ایک کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، گواہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دونوں ایجاب و قبول کے الفاظ کو ایک ساتھ سنیں اور سن کر یہ سمجھ لیں کہ نکاح ہو رہا ہے گو ان الفاظ کے معنی نہ سمجھیں ( مثلا ایجاب و قبول کسی ایسی زبان میں ہو جسے وہ نہ جانتے ہوں) اگر دونوں گواہ ایجاب و قبول کے الفاظ ایک ساتھ نہ سنیں بلکہ الگ الگ سنیں تو نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے کہا کہ میری فلانا بالغ لڑکی کا نکاح فلاں شخص کے ساتھ کردو اور اس شخص نے اس لڑکی کا نکاح اس باپ اور ایک دوسرے مرد کی موجودگی میں کیا تو یہ جائز ہوگا لیکن اگر باپ موجودہ ہو تو پھر دونوں مردوں یا ایک مرد اور عورتوں کی موجودگی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوگا۔
Top