مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4618
وعن قيلة بنت مخرمة أنها رأت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد وهو قاعد القرفصاء . قالت فلما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم المتخشع أرعدت من الفرق . رواه أبو داود .
آنحضرت ﷺ کی ایک منکسرانہ نشست
اور حضرت قیلہ بنت مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ کو مسجد میں بہ ہیبت قرفضا بیٹھے ہوئے دیکھا قیلہ ؓ کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اکرم ﷺ کو اس طرح انتہائی فروتنی و انکساری، خشوع و خضوع اور استغراق و حضوری کے عالم میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں مارے ہیبت کے کانپ گئی۔ (ابوداؤد)

تشریح
قرفصاء قاف کے پیش، راء کے جزم اور فاء کے پیش اور زبر کے ساتھ کے معنی ہیں اکڑوں بیٹھنا اور ہاتھوں کو ٹانگوں کے گرد باندھنا چناچہ اس نشست یعنی قرفصاء کی صورت یہ ہوتی ہے دونوں تانوؤں کو کھڑا کے سرینوں (کولھوں) پر بیٹھ جاتے ہیں زانوؤں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کو پنڈلیوں پا باندھ لیتے ہیں۔ قرفضاء کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دونوں زانووں کو زمین پر ٹیک کر رانوں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں بغلوں میں داب لی جاتی ہیں اس طرح کہ دائیں ہتھیلی بائیں بغل میں اور بائیں ہتھیلی دائیں بغل میں رہتی ہیں بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ عام طور پر عرب کے ان غیر متمدن لوگوں میں رائج تھا جو جنگلات میں بود وباش رکھتے تھے نیز وہ مسکین غریب لوگ بھی اس طرح بیٹھتے ہیں جو تفکرات و خیالات اور غم و آلام میں مبتلا ہوتے ہیں چونکہ یہ نشست انتہائی عجز وبے چارگی اور کمال انکسار فروتنی کو ظاہر کرتی ہے اس لئے آنحضرت ﷺ اس ہییت کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔
Top