مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4640
وعن سلمة بن الأكوع أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وعطس رجل عنده فقال له يرحمك الله ثم عطس أخرى فقال الرجل مزكوم . رواه مسلم وفي رواية الترمذي أنه قال له في الثالثة إنه مزكوم .
جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اس کے جواب کا مسئلہ
اور حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ کو اس شخص کی چھینک کا جواب دیتے سنا جو اس وقت آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا چناچہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ پھر جب اس کو دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہوگیا ہے اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے اس شخص کو تیسری بار چھینکنے پر یہ فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہوگیا ہے۔

تشریح
آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اس شخص کو چونکہ زکام ہوگیا ہے اس لئے یہ باربار چھینکے گا اور الحمد للہ کہے گا لہذا اس کے جواب میں باربار یرحمک اللہ کہنے کی ضرورت نہیں واضح رہے کہ ابوداؤد اور ترمذی کی ایک اور روایت میں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اور وہ الحمد للہ کہتا رہے تو تین چھینکوں تک جواب دیا جائے تیسری مرتبہ کے بعد اختیار ہوگا کہ چاہے جواب دے چاہے نہ دے۔ پس حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر کسی شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے تو اس کے جواب میں تین چھینکوں تک یرحمک اللہ تو واجب یا سنت موکدہ ہے تیسری مرتبہ کے بعد سکوت اور جواب کے درمیان اختیار ہوگا کہ چاہے تو تین مرتبہ کے بعد جواب نہ دے جو رخصت یعنی شریعت کی طرف سے آسانی اور چاہے تین مرتبہ کے بعد بھی جواب دیتا رہے جو مستحب ہے گویا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ تین مرتبہ کے بعد جواب دینا کوئی ناجائز بات نہیں ہے لیکن واجب یا سنت مؤ کدہ نہیں ہے۔
Top