مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4675
وعن عائشة رضي الله عنها أن امرأة قالت يا رسول الله إني ولدت غلاما فسميته محمدا وكنيته أبا القاسم فذكر لي أنك تكره ذلك . فقال ما الذي أحل اسمي وحرم كنيتي ؟ أو ماالذي حرم كنيتي وأحل اسمي ؟ . رواه أبو داود . وقال محيي السنة غريب .
آنحضرت ﷺ کا نام اور کنیت ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت بطور تحریم نہیں ہے۔
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میرے ایک لڑکا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی ہے لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اس کو پسند نہیں فرماتے یعنی بتانے والے نے مجھ کو یہ بتلایا کہ آپ نے اپنا نام اور کنیت ایک ساتھ اختیار کئے جانے کو حرام قرار دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ایسی کیا چیز ہے جس نے میرے نام پر نام رکھنے کو تو حلال و جائز رکھا ہے اور میری کنیت پر کنیت مقرر کرنے کو حرام کیا ہے یا یہ فرمایا کہ ایسی کیا چیز ہے جس نے میری کنیت پر کنیت رکھنے کو تو حرام کیا ہے اور میرے نام پر نام رکھنے کو حلال رکھا ہے؟ ابوداؤد) اور محی السنہ نے کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کے سلسلے میں راوی نے یہ فرمایا کہ کے ذریعہ اپنے شک کو ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو پہلے نام کی حلت اور بعد میں کنیت کی حرمت کو ذکر کیا یا پہلے کنیت کی حرمت کو اور بعد میں نام کی حلت کو ذکر فرمایا۔ تاہم دونوں صورتوں میں معنی و مطلب ایک ہی ہیں مفہوم و مقصد کے درمیان کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے! اصل بات یہ ہے کہ محدث جب کوئی حدیث بیان کرتا ہے تو اس بات کو پوری احتیاط رکھتا ہے کہ اس حدیث کے الفاظ آنحضرت ﷺ سے جس طرح سنے ہیں یا جس طرح اس تک پہنچے ہیں اسی طرح بعینیہ ان کو نقل کرے چونکہ اس موقع پر راوی کو الفاظ حدیث کے سلسلے میں شک ہو اس لئے اس نے مذکورہ طرح سے بیان کیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے نام اور کنیت کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی ممانعت بطریق تحریم یعنی حرام ہونے کے طور پر نہیں ہے بلکہ مکروہ تنزیہی کے طور پر ہے۔
Top