مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4691
وعن جندب أن النبي صلى الله عليه وسلم كان في بعض المشاهد وقد دميت أصبعه فقال هل أنت إلا أصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت متفق عليه
آنحضرت ﷺ کا ایک شعر
اور حضرت جندب ؓ کہتے ہیں کہ نبی نے ایک جنگ (غزوہ احد) میں شریک تھے کہ معرکہ آرائی کے دوران آپ کی انگلی زخمی ہوگئی اور اس کی وجہ سے خون آلودہ ہوگئی آپ نے بطور استعارہ یا درحقیقت انگلی کو تسلی دیتے ہوئے اس کو مخاطب کر کے یہ شعر فرمایا (بخاری)۔ یعنی تو کیا ہے ایک انگلی ہے خون آلود ہوئی اور پھر تجھ کو یہ جو کچھ ہوا ہے اللہ کی راہ میں ہوا ہے۔

تشریح
زخمی اور خون آلود انگلی کو مخاطب کر کے آپ نے جو اشعار ارشاد فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ تو جسم کا کوئی بڑا حصہ نہیں ہے بدن کا کوئی سب سے اہم عضو نہیں ہے ایک معمولی سی انگلی ہے پھر تجھے جو تکلیف ہوئی وہ سخت اور شدید ترین نہیں ہے کہ نہ تو کٹ کر گر پڑی ہے اور نہ ہلاکت میں مبتلا ہوئی ہے تجھ کو صرف زخم پہنچا ہے اور خون آلود ہوگئی ہے اگر تو نے اتنی سی تکلیف اٹھائی ہے اس کی وجہ سے بےتابی اور بےقراری کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ یہ تھوڑی سی تکلیف بھی ضائع جانے والی نہیں ہے بلکہ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضاء میں چونکہ تو نے تکلیف اٹھائی ہے اس لئے تجھ کو اس پر اجر ملے گا اس اعتبار سے یہ تکلیف بھی تیرے لئے خوشی و راحت کا ذریعہ ہونا چاہیے اس ارشاد کے ذریعہ گویا آپ نے امت کے لوگوں کو تلقین فرمائی کہ اگر کسی مسلمان کو اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف و ضرر پہنچے تو اس پر صبر کرنا چاہیے بلکہ حقیقت میں اس کو شکر کا مقام سمجھنا چاہیے کہ اللہ کا عطا کیا ہوا جسم و بدن اسی کی راہ میں قربان کرنے اور تکلیف اٹھانے کی توفیق نصیب ہوئی جو ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس حدیث کے سلسلے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ ارشاد ایک شعر ہے جب کہ آپ کی ذات اقدس شعر و شاعری کے وصف سے پاک ہے اور آپ کی ذات سے کسی شعر کا صادر ہونا غیر ممکن ہے کیونکہ اللہ نے آپ کے بارے میں فرمایا وما علمنہ الشعر، یعنی اور ہم نے آپ کو شعر کہنا سکھایا ہی نہیں، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ شعر میں شاعر کا قصد و ارادہ بھی شرط ہے یعنی یہ ضرور ہے کہ جس شخص نے کوئی کلام موزوں کیا ہے اس نے موزونیت کا قصد و ارادہ بھی کیا ہو جیسا کہ باب کے شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ جب نبی کا ارشاد گرامی بلاشبہ موزوں کلام ہے لیکن اس کی موزونیت آپ کے کسی قصد و ارادہ کے تحت نہیں ہوئی، بلکہ قصد و ارادہ اور بےساختہ آپ کی زبان مبارک سے صادر ہونے والا یہ کلام شعر میں ڈھل گیا۔ بعض حضرات نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت ﷺ کا مذکورہ کلام اصل رجز کی قسم ہے اور جز پر شعر کا اطلاق نہیں ہوتا، علاوہ ازیں یحییٰ نے یہ کہا ہے کہ جو شخص بطریق ندرت یعنی اتفاقا کبھی کوئی شعر کہہ دے تو اس کو شاعر نہیں کہا جاتا اور اللہ کے ارشاد وماعلمنہ الشعر سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ شاعر نہیں ہیں۔
Top