مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4695
وعن البراء قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينقل التراب يوم الخندق حتى اغبر بطنه يقول والله لولا الله ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فأنزلن سكينة علينا وثبت الأقدام إن لاقينا إن الأولى قد بغوا علينا إذا أرادوا فتنة أبينا يرفع بها صوته أبينا أبينا . متفق عليه
غزوہ خندق میں عبداللہ بن رواحہ کارجزیہ کلام آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک پر
اور حضرت براء ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خندق کھودے جانے کے دن خود بنفس نفیس مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے یعنی غزوہ احزاب کے موقع پر جب خندق کھودی جا رہی تھی تو سرکار دو عالم بنفس نفیس سارے کام میں شریک تھے، صحابہ ؓ کے ساتھ آپ بھی بڑے بڑے پتھر اٹھاتے اور مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کا شکم مبارک غبار آلود ہوگیا تھا اور اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کا یہ رجزیہ کلام پڑھتے جاتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے۔ خدا کی قسم اگر اللہ کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم راہ راست نہیں پاسکتے تھے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے تھے۔ پس اے اللہ ہم پر وقار اور اطمینان نازل فرما و رجب دشمنان دین سے ہماری مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ بے شک کفار مکہ نے ہم پر اس لئے زیادتی کی ہے جب وہ ہمیں فتنہ میں مبتلا کرنے یعنی کفر کی طرف واپس لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم انکار کردیتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھتے تھے خصوصا ابینا ابینا پر آواز بلند ہوجاتی تھی۔

تشریح
یرفع بھا صوتہ میں بھا کی ضمیر لفظ ابینا کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا سے پہلے لفظ قائلا مقدر ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ان اشعار کو پڑھتے تو اخر میں لفظ ابینا کو بار بار دہراتے اور اس وقت آپ کی آواز کو زیادہ بلند کرتے اور اس سے مقصد اس لفظ کے مفہوم کو مؤ کد کرنا، تلذذ و حظ حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں اور کافروں کے کانوں تک پہنچانا تھا۔ طبی نے یہ لکھا ہے کہ بھا کی ضمیر ان اشعار کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا اس جملہ میں حال واقع ہو رہا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ تمام اشعار کو باآواز بلند پڑھتے تھے اور لفظ ابینا پر پہنچ کر آواز کو خصوصیت سے بلند کردیتے تھے۔
Top