مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4751
وعن ابن عباس أن رجلا نازعته الريح رداءه فلعنها . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تلعنها فإنها مأمورة وإنه من لعن شيئا ليس له بأهل رجعت اللعنة عليه . رواه الترمذي وأبو داود .
جو شخص لعنت کے قابل نہ ہو اس پر لعنت کرنا خود اپنے آپ کو مبتلائے لعنت کرنا ہے۔
اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن کا واقعہ ہے ایک شخص کی چادر ہوا میں اڑ گئی تو اس نے ہوا پر لعنت کی چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ تو حکم کے تابع ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت کرے جو اس لعنت کے قابل نہ ہو تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
وہ تو حکم کے تابع ہے، کا مطلب یہ ہے کہ بذات خود کوئی حثییت نہیں رکھتی اور نہ کسی کی طرح کا تصرف کرنے کے قابل ہے وہ تو چلنے پر منجانب اللہ مامور کی گئی ہے اور حق تعالیٰ نے اپنی حکمتوں اور مصالح کے تحت اس کو پیدا کیا اور چلایا بس اس کا کام چلنا ہے اور وہ چلتی ہے اس صورت میں اگر اس کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس ہوا سے دل برداشتہ ہونا اور اس کو برا بھلا کہنا نہ صرف نہایت ناموزوں بات ہے بلکہ تقاضائے عبودیت اور استقامت کے منافی بھی ہے زمانہ کے حوادث و تغیرات اور انسان کے اپنے تابع ارادوں اور افعال کے بارے میں یہی حکم ہے کہ رنج و حادثہ کے وقت اپنے ظاہر و باطن دونوں میں قلب وبان کو اراضی و ساکت رکھے اور اگر کسی تکلیف و حادثہ کے وقت بتقاضائے بشریت اپنے اندر کوئی تغیر اور دل کو متاثر پائے تو لازم ہے کہ زبان کو قابو میں رکھے کہ اس سے شکوہ و شکایت اور اظہار رنج کا کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جو مرتبہ عبودیت اور اسلامی تعلیمات و آداب کے خلاف ہو۔
Top